افروز عالم

افروز عالم کی شاعری میں زندگی سے ناآسودگی کا شکوہ نظر نہیں آتا جو کہ اُردو شاعری میں اکثر شعراء کا موضوعِ سخن ہے۔ بلکہ وہ اس کے متضاد اس طرح کے منفی رویوں پر اپنی توانائی صرف نہیں کرتے۔ وہ اپنے حال کے کچھ توانا جزبوں کو مرکزِ خیال بنا کر اپنے مثبت رویوں کو تخیل میں ڈھال کر ایک کینوس فراہم کرتے ہیں جہاں وہ اپنے خیالات کی رنگینی بکھیرتے ہیں۔ اُن کی شاعری کا سہل ممتنع کا انداز سادگی سے مزین ہے۔ ان کے یہاں غزل میں کہیں بھی غیر معنویت اور بے وقعتی کا عنصر نہیں دکھائی دیتا ہے۔ اُن کے بعض اشعار سننے اور پڑھنے والوں کو حیران کر دیتے ہیں۔

عمر بھر کون محبت میں تری روئے گا

اپنی مستی میں سبھی یار نظر آتے ہیں

Back to top button