مری نگاہ میں قربت کی جستجو نہ رہی
عجب تھا شوقِ محبت اب آرزو نہ رہی
مرا وہ دل نہ رہا ، دل کی آرزو نہ رہی
وہ دل لگی نہ رہی ، وجہِ گفتگو نہ رہی
بہت ہی دل ہے کہ رو لوں تری جفا پہ مگر!
مری نگاہ میں اب کوئی آبجو نہ رہی
یہ تیرے شہر میں کیسا ہے امتحاں میرا؟
بہت ہے شُہرہ مرا، لیکن آبرو نہ رہی
پڑھوں میں کیسے محبت کی اب نماز، حسؔن!
جو سو گیا تو مری ذات با وضو نہ رہی
حسن ابن ساقی