عجیب کرب میں گزری گزری، جہاں جہاں گزری
اگرچہ چاہنے والوں کے درمیاں گزری
تمام عمر چراغِ امید جلاتے رہے
تمام عمر امیدوں کے درمیاں گزری
گذر گئی جو تیرے ساتھ وہ یادگار رہی
بنا تیرے جو گزری، وبالِ جاں گزری
مجھے سکوں میّسر نہیں تو کیا غم ہے
گُلوں کی عمر تو کانٹوں کے درمیاں گزری
عجیب چیز ہے یہ گردشِ حالات "محسن”
کبھی زمِیں تو کبھی مثلِ آسماں گزری
محسن نقوی