دور تک کوئی نہیں
آج پھر پیاس کے بادل سے اُمڈ آئے ہیں
آج پھر آنکھ نے ساون کی دُہائی دی ہے
اتنے بے نور زمانوں کی مسافر دھرتی
چشمِ بے نور بھی کیا دیکھے گی
چار سو دشت! بگولوں سے نکلتے چہرے
حجلہء جاں میں نظر دور تلک بھٹکے گی
کس کو معلوم ہے کس نقش پہ پتھر ہوگی!
جسم بادل سے بنے آنکھ تلک آئے تھے
ایسے معدوم ہوا روپ کا سونا‘ جیسے
زاویہ دھیان کا خورشید بدل ڈالے ، تو
آنکھ بادل کو سہولت سے بدل دیتی ہے
چشم ‘پیکر کی تراشِندہ ہے
جسم پانی سے بنے تھے شاید
دل نے آنکھوں سے بہاڈالے ہیں !
جسم خوشبو سے بنے‘ نازک اندام
آنکھ پیکر سے ہٹائے نہ ہٹے
جسم پتھر سے نکل آئے قدامت اوڑھے
چَشم پیکر کی تراشندہ ہے!
جنگلوں جنگلوں تجسیم مجسّم ہو کر
کس کی صورت کی طرف چلتی چلی جاتی ہے
آسمانوں کو دریچوں سے سجاتی آنکھو!
دورتک کوئی نہیں ، کوئی نہیں ، کوئی نہیں
کوئی روزن کوئی جالی نہیں زندانوں میں
دور تک دھند ہیولوں کے جہاں بکھرے ہیں
کوئی پیکر بھی نہیں
صرف گماں بکھرے ہیں !
شہزاد نیّرؔ