- Advertisement -

چھوٹے گھر بڑے لوگ

عامر جٹ کا اردو کالم

” چھوٹے گھر بڑے لوگ "

ابھی کچھ ہی برس پہلے کی تو بات ہے جب عموماََ لوگوں کے گھر ایک کمرے پر مشتمل ہوا کرتے تھے جو لوگ معاشی لحاظ سے کچھ بہتر تھے انکے گھر بھی دو ہی کمروں پر مشتمل ہوا کرتے تھے اور ایسے گھروں میں بسنے والے افراد کی تعداد عموماََ دس سے کم نہیں ہوا کرتی تھی۔ اسی ایک کمرے گھر کے بڑے بزرگ انکے آٹھ آٹھ دس دس بیٹے بیٹیاں درجنوں پوتوں پوتیاں سما جایا کرتے تھے۔ گھر کے افراد مل جل کر کام کرتے اور گھر میں وقوع پذیر ہونے والی خوشیاں اور غم مل جل کر بانٹ لیتے۔ گھروں کی چار دیواری بھی نہیں ہوا کرتی اور اگر کسی نے کوئی پتھروں سے چھوٹی موٹی دیوار بنا لی ہو یا کانٹوں کی باڑ لگا بھی لی ہو تو بھی کوئی دروازہ کوئی مین گیٹ نہیں ہوتا تھا بس ایک طرف سے آنے جانے کے لئے راستہ چھوڑ دیا جاتا تھا۔ لوگوں کے پاس دو جوڑے کپڑوں کے ہوا کرتے ایک کہیں آنے جانے کے لئے اور ایک عام استعمال کے لئے جسے وہ جوہڑ یا تالاب پر دھو کر سوکھنے کے لئے پھیلا دیتے تھے اور جب تک وہ سوکھتا تھا تب تک خود تالاب میں نہاتے رہتے۔ استری بھی بہت خاص چیز تھی جو کوئلوں سے گرم کی جاتی تھی اور ہر کس و ناکس کو دستیاب نہ تھی عموماً لوگ بستر کے نیچے کپڑے رکھ دیتے جو کچھ نہ کچھ سیدھے ہو جاتے۔
دودھ کو لوگ ” اللہ کا نور” سمجھتے تھے اور بیچنا گناہ، اگر کوئی لینے آ جاتا تو اسے بلا معاوضہ دے دیا جاتا۔ اگر کسی کے گھر فوتگی ہو جاتی تو سب سے پہلے تدفین تک علاقے میں تمام تر کام کاج بند کر دئیے جاتے چاہے فوتگی دشمن ہی کی کیوں نہ ہوئی ہو۔ فوتگی والے گھر آنے والے مہمان، رشتے دار اور محلے والے آپس میں بانٹ لیتے تا کہ لواحقین پر کسی قسم کا اضافی بوجھ نہ آئے اور کم از کم ہفتہ بھر فوتگی والے گھر چولہا نہ جلنے دیا جاتا، انکے کچن کی ذمہ داری بقیہ رشتے دار اور محلے والے اٹھاتے۔ اسی دوران اگر کسی کی شادی ہوتی تو اسے موخر کر دیا جاتا یا پھر کسی مجبوری کے تحت شادی کرنا ناگزیر ہی ہوتا تو اس ڈھول باجے نہ بجائے جاتے اور تمام رسومات انتہائی سادگی سے کی جاتیں اور اس بات کا خیال رکھا جاتا کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے مرحوم کے لواحقین کی دلآزاری ہوتی ہو۔
اگر کسی کا کام جلدی ختم ہو جاتا تو وہ گھر آ کر سو نہیں جاتا بلکہ اپنے کسی رشتے دار، دوست یا پڑوسی کے کام میں مدد کرانے پہنچ جاتا۔ کسی کا تعمیراتی کام ہوتا تو اسے صرف معمار کی حاجت ہوتی بقیہ مزدوری کو دوست رشتے دار دستیاب ہوتے۔
لوگ صبح جلدی اُٹھنے کے عادی تھے دن بھر کام کاج کرتے اور مغرب تک اپنے کام نمٹا کر گھر آ جاتے اور پھر رات کا کھانا کھانے کے بعد سب بہن بھائی گپ شپ لگاتے ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹتے کوئی بزرگ کوئی کہانی سناتا ایک دوسرے کو لطیفے سناتے اور پہیلیاں ڈالتے ۔
یہ وہ لوگ تھے جنکے بچے سانجھے، عزتیں سانجھی، بزرگ سانجھے، خوشیاں اور غم سانجھے تھے۔ جوان لڑکے لڑکیاں اکٹھے کھیلا کرتے تھے مگر کسی کو شبہ تک نہ ہوتا کہ اس اخلاط میں انکی بچی کی عزت محفوظ نہیں ہے بغیر دروازے اور بغیر چاردیواری کے ان گھروں میں چادر اور چاردیواری(گھر) دونوں ہی محفوظ تھے ۔
اگر کسی گھر کا کوئی سپوت بیرونِ ملک چلا جاتا یا کسی اچھی ملازمت پہ لگ جاتا تو اس گھر کے معاشی حالات اچھے ہونے لگتے تو کوئی ان سے حسد نہ کرتا بلکہ سب اس بات سے خوش ہوتے اور یونہی اُسکے گھر والے اپنی خوشحالی میں اُن تمام لوگوں کو شریک کر لیتے۔ "کماؤ پُت” سب کے لئے حسبِ استطاعت تحائف بھی لاتا اور بوقتِ ضرورت مالی امداد بھی کرتا۔
ان لوگوں کی خوراک بھی انتہائی سادہ تھی صبح پراٹھے یا روٹیاں لسی سے کھا لی جاتیں دوپہر کو چٹنی، لسی، اچار، ٹماٹر یا خربوزوں کے ساتھ روٹی کھا لی جاتی اور شام کو اکثر اُبلی ہوئی دال ہوتی۔ ہفتے دو ہفتے میں ایک بار آدھا کلو گوشت آ جاتا تو سارا گھر اسکے شوربے سے مستفید ہوتا اور اللہ کا شکر ادا کرتا۔
بظاہر معاشی طور پر غریب نظر آنے والے کتنی بھرپور اور حقیقی زندگی جیتے تھے انھیں جو دولت میسر تھی جو رشتے خلوص محبتیں اور احساس کی دولتیں میسر تھیں انکا آج کے دور میں تصور بھی مشکل ہے۔ وہ لوگ معاشی طور پر کمزور لیکن خوش، مطمئن اور ” اپنوں سے محفوظ تھے”. بچوں کو بزرگوں سے محبت اور بزرگوں بچوں سے عزت ادب اور احترام ملتا تھا انکے اندر بغض، حسد، بخل اور لالچ نہیں تھا۔ جسکے پاس جو تھا اُسی پر صابر، شاکر اور مطمئن تھا۔ اُنکے ارد گرد انکے غمخوار انکے چاہنے والے مخلص لوگ بستے تھے جن سے وہ اپنا دکھ درد اور خوشیاں بانٹتے تھے۔ کوئی بھی شخص تنہائی کا شکار نہیں تھا۔ وہ "چھوٹے گھروں میں بسنے والے بڑے لوگ” تھے۔
پھر ایک ایک کر کے وہ لوگ دُنیا سے رخصت ہوتے گئے اور انکی جگہ بالشتئیے آتے گئے جو دکھنے میں قد کاٹھ میں تو انہی جیسے ہیں مگر انکے کردار انکی سوچ انکے جذبات کے قد بہت چھوٹے۔ گھروں کے باہر گیٹ بھی لگ گئے چار دیواری بھی بن گئ مگر نہ چادر محفوظ رہی نہ چاردیواری، دس افراد کے لئے ایک کمرے کی بجائے اب لوگوں نے دس دس کمروں کے گھر بنا لئیے جہان تین سے چار "حقیقی طور پر اجنبی” بس رہے ہیں۔ اب گھر میں دادا دادی کی جگہ ٹی وی صرف کیبل نے لے لی ہے ۔گھر میں اب صرف ٹی وی کو بولنے کی اجازت ہے کوئی بہن بھائی اگر بات کرنا بھی چاہے تو اسے خاموش کرا دیا جاتا ہے کیونکہ ” میرا سلطان ” میرے بھائی سے زیادہ اہم ہے۔ موبائل آیا لوگوں نے سمجھا فاصلے سمٹ رہے ہیں مگر یہ کیا؟؟؟ موبائیل فون نے تو فاصلے بڑھا دئیے اب بچے دودھ مانگتے روتے بلکتے رہ جائیں گے مگر اماں نے تو کینڈی کرش ساگا کی چالیسویں سٹیج مکمل کر کے ہی کسی اور طرف دھیان دینا ہے۔ اب گھر کا ہر فرد کمانے کی ریس میں جُتا ہوا ہے, اور گھر میں ایک بیروزگار بھائی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ گھر تو کھلے ہوتے گئے مگر دل تنگ ہو گئے۔ اب گھروں میں تین وقت مرغن غذائیں پک رہی ہیں مگر بھوک بڑھتی جا رہی اب کسی کے گھر سالن بھیجنے کسی کو اپنے دسترخوان پہ شامل کرنے کی ہمت نہیں رہی ۔ بزرگ بچوں کی محبت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں تو بچے بزرگوں کی شفقت سے۔
جوں جوں پیسہ آتا گیا توں توں "انسان” غریب ہوتا گیا اُسکے رشتے ختم ہوتے گئے دلوں میں حسد ، بخل اور لالچ نے جگہ لے لی فرصت میں بھی کسی کے پاس کسی دوسرے کے لئے وقت نہیں رہا۔ دروازے تو لگ گئے مگر چادر اور چاردیواری کے چور اندر گھس چکے ہیں ۔
لوگ کہتے ہیں زمانہ بدل گیا ہے حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ لوگ بدل گئے ہیں۔ آسائیشوں اور راحتوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے انسان انسانیت کو کہیں پیچھے چھوڑ آیا ہے۔ انسان کی دولت پیسہ نہیں رشتہ ہے، ہم پیسوں کے لئے رشتوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں ہم ہیں بڑے گھروں میں بسنے والے غریب لوگ ۔ اب بھی اگر کسی حقیقی خوشی دیکھنی ہو انسانیت دیکھنی ہو تو دور دراز کے علاقے میں چلے جائیں جہاں جدید دور کی خرافات سے محفوظ کوئی کچا کوٹھا کوئی چھوٹا گھر ہو تو وہاں پر اے انسان تجھے بچھڑی انسانیت کھیلتی کودتی مل جائے گی۔”

عامر جٹ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
کاشف حسین غائر کی ایک اردو غزل