شرم کی کیا بات ہے، شرمائیں کیوں ؟
غزل بقلم محمد ولی اللّٰہ ولی
شرم کی کیا بات ہے، شرمائیں کیوں ؟
ہم گنہگارِ وفا پچھتائیں کیوں َ؟
موت ہے دراصل پیغامِ حیات
موت سے اہلِ جنوں گھبرائیں کیوں ؟
دل کے کیف و کم سے جو ہیں آشنا
نفس کی چالوں سے دھوکا کھائیں کیوں ؟
یہ نہیں کہ اُٹھ کے ہم جائیں کہاں
یہ کے تیرے در سے اٹھ کے جائیں کیوں ؟
آئینے کی خود ضرورت ہے ہمیں
آئینہ اوروں کو ہم دکھلائیں کیوں ؟
ہم ہیں اپنی ذات میں خود انجمن
ہم کسی کی انجمن میں جائیں کیوں ؟
پاؤں سے گرداب لپٹی ہے ولیؔ
گردشِ ایَّام سے گھبرائیں کیوں
ولی اللّٰہ ولی