رہیے بغیر تیرے اے رشک ماہ تا چند
آنکھوں میں یوں ہماری عالم سیاہ تا چند
اب دیکھنے میں پیارے ٹک تو بڑھا عنایت
کوتاہ تر پلک سے ایدھر نگاہ تا چند
خط سے جو ہے گرفتہ وہ مہ نہیں نکلتا
مانند چشم اختر ہم دیکھیں راہ تا چند
عمر عزیز ساری منت ہی کرتے گذری
بے جرم آہ رہیے یوں عذر خواہ تا چند
یاں ناز و سرکشی سے کیا دیکھتا نہیں ہے
کج اس چمن میں ٹھہری گل کی کلاہ تا چند
جب مہ ادھر سے نکلا جانا وہ گھر سے نکلا
رکھتا ہے داغ دیکھیں یہ اشتباہ تا چند
ایذا بھی کھنچ چکے گر جو ہفتے عشرے کی ہو
اس طرح مرتے رہیے اے میر آہ تا چند
میر تقی میر