آنکھ رکھتے ہوئے توہین نظر کون کرے
ناؤ ٹوٹی ہوئی دیکھے تو سفر کون کرے
سب یہاں پار اترنے کے لئے بیٹھے ہیں
سامنا تند ہواؤں کا مگر کون کرے
لاش بے گور و کفن کب سے پڑی ہے باہر
سبھی قاتل ہوں تو بستی میں خبر کون کرے
لوگ جنگل کے درختوں کو اٹھا لے گئے گھر
دھوپ میں جلتے پرندوں پہ نظر کون کرے
دور تک راہ میں چھایا ہے خزاں کا منظر
خواب آنکھوں میں نہ مہکے تو سفر کون کرے
جھلملا دے تجھے اک موج ہوا کی آہٹ
شمع بے مایہ ترے ساتھ سحر کون کرے
امتحان دل و جاں ہے یہ محبت کی صلیب
سہل ہو معرکۂ شوق تو سر کون کرے
آج لفظوں کا بھرم ٹوٹ گیا ہے قیصرؔ
ہم بھی نقاد ہیں تنقید مگر کون کرے
قیصرالجعفری