شفق کی سُرخی اُبھر رہی ہے،اُتر رہی ہیں اُداس شامیں
ہمارے خوں سے چُرا کے لالی نکھر رہی ہیں اُداس شامیں
تمھیں کو ضد تھی کہ تم چلو گے ہمارے ہمراہ اس سفر میں
اگر ہو چلنا تو آؤ دیکھو بکھر رہی ہیں اُداس شامیں
جو چھوڑ کر ہی تمھیں تھا جانا تو ساتھ دینے کو کیوں کہا تھا
تم آکے دیکھو کہ بِن تمھارے گزر رہی ہیں اُداس شامیں
بکھر رہی ہوں میں راستوں میں کہ تیرے آنے کی منتظر ہوں
جلا رہی ہوں میں دیپ دل کے ،سنور رہی ہیں اُداس شامیں
وہ میرے ہاتھوں پہ ہاتھ رکھنا مجھے محبت سے تکتے رہنا
تم آؤ میری بہار بن کر ،اُتر رہی ہیں اُداس شامیں
ہوئے ہیں آنسو بھی ختم اب تو نہ وہ رہے اب نہ اُن کی باتیں
بچھڑ گئے وہ مگر دؔعا ہم سفر رہی ہیں اُداس شامیں
دعا علی