- Advertisement -

ٹھنڈا سورج

شازیہ اکبر کی اردو نطم

ٹھنڈا سورج
[ایک پیدائشی نابینا لڑکی کے نام]

میرے مولا! میرے دل نے
یہ کیسا درد پایا ہے
میں دیکھوں یا نہ دیکھوں
مجھ کو جُز اِک گہرے سائے کے
دکھائی کُچھ نہیں دیتا
کھُلی آنکھوں سے بھی مجھ پر
کوئی منظر نہیں کھُلتا
سُنا ہے میرے چاروں اَور
اِک رنگوں کا میلہ ہے
مگر رنگوں کے میلے میں
مری آنکھیں ترستی ہیں
خبر مجھ کو نہیں اب تک
دھنک کے رنگ کیسے ہیں ؟
بھلا میں کس طرح سمجھوں
گُل و گلرنگ کیسے ہیں ؟
خبر مجھ کو نہیں یہ بھی
کہ میرا رنگ کیسا ہے؟
بھلا یہ کس کے جیسا ہے؟
کبھی یہ سوچتی ہوں میں
کہ میرے نقش تیکھے ہیں
کبھی یہ سوچتی ہوں میں
کہ میرے گال پھیکے ہیں
بھلا یہ کس سے پوچھوں کہ
مری آنکھیں سمندر ہیں ؟
مری زلفیں گھٹائیں ہیں ؟
مگر معلوم کیا مجھ کو
اگر آنکھیں سمندر ہیں
سمندر کس کے جیسا ہے؟
اگر زلفیں گھٹائیں ہیں
گھٹا کا رنگ کیسا ہے؟
مجھے تو رُت بدلنے کا
سوائے گرمی سردی کے
کہاں احساس ہوتا ہے
مجھے یہ بھی نہیں دِکھتا
کہ صورت اُس کی کیس ہے
جنم جس نے دیا مجھ کو
سُنا ہے میں نے دُنیا میں
کہ آئینہ نہیں جھوٹا
کسی سچ کو نہ جھٹلائے
مگر میرے سوالوں پر
اُسے بھی چُپ سی لگ جائے
نہ کُچھ مجھ کو بتا پائے
مرے مولا! میں دُنیا میں
بھلا کیا جینے آئی ہوں
کوئی دن کا اُجالا کیا
کوئی شب چاند تاروں کی
کبھی میں نے نہیں دیکھی
مجھے معلوم کرنا تھا
سحر سے شام ہونے تک
اگر منظر بدلتے ہیں
تو کن رنگوں میں ڈھلتے ہیں ؟
مجھے تو دن اُجالے کا
کوئی معنی نہیں دیتا
سُنا ہے رات کالی ہے
مگر میں نے نہیں دیکھی
مری بے رنگ دُنیا کو
کوئی رنگوں سے بھر سکتا !!
مری بے نور آنکھوں میں
کوئی منظر اُتر سکتا !!

شازیہ اکبر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شازیہ اکبر کی اردو نطم