مسٹر معین الدین
منہ سے کبھی جدا نہ ہونے والا سگار ایش ٹرے میں پڑا ہلکا ہلکا دھواں دے رہا تھا۔ پاس ہی مسٹر معین الدین آرام کرسی پر بیٹھے ایک ہاتھ اپنے چوڑے ماتھے پر رکھے کچھ سوچ رہے تھے، حالانکہ وہ اس کے عادی نہیں تھے۔ آمدن معقول تھی۔ کراچی شہر میں ان کی موٹروں کی دکان سب سے بڑی تھی۔ اس کے علاوہ سوسائٹی کے اونچے حلقوں میں ان کا بڑا نام تھا۔ کئی کلبوں کے ممبر تھے۔ بڑی بڑی پارٹیوں میں ان کی شرکت ضروری سمجھی جاتی تھی۔ صاحب اولاد تھے۔ لڑکا انگلستان میں تعلیم حاصل کررہا تھا۔ لڑکی بہت کمسن تھی، لیکن بڑی ذہین اور خوب صورت۔ وہ اس طرف سے بھی بالکل مطمئن تھے۔ لیکن اپنی بیوی کو۔ مگر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مسٹر معین الدین کی شادی کے متعلق چند باتیں بتا دی جائیں۔ مسٹر معین الدین کے والد بمبئی میں ریشم کے بہت بڑے بیوپاری تھے۔ یوں تو وہ رہنے والے لاہور کے تھے مگر کاروباری سلسلے کے باعث بمبئی ہی میں مقیم ہو گئے تھے اور یہی ان کا وطن بن گیا تھا۔ معین الدین جو ان کا اکلوتا بیٹا تھا، بظاہر عاشق مزاج نہیں تھا لیکن معلوم نہیں وہ کیسے اور کیونکر آدم جی باٹلی والی کی موٹی موٹی غلافی آنکھوں والی لڑکی پر فریفتہ ہو گیا۔ لڑکی کا نام زہرہ تھا، معین سے محبت کرتی تھی، مگر شادی میں کئی مشکلات حائل تھیں۔ آدم جی باٹلی والا جو معین کے والد کا پڑوسی اور دوست بھی تھا، بڑے پرانے خیالات کا بوہرہ تھا۔ وہ اپنی لڑکی کی شادی اپنے ہی فرقے میں کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ زہرہ اور معین کا معاشقہ بہت دیر تک بے نتیجہ چلتا رہا۔ اس دوران میں معین الدین کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ماں بہت پہلے مر چکی تھی۔ اب کاروبار کا سارا بوجھ معین کے کندھوں پر آن پڑا، جس سے ان کو کوئی رغبت نہیں تھی۔ ادھر زہرہ کی محبت بھی تھی جو کسی حیلے باآور ثابت ہوتی نظر نہیں آتی تھی۔ پھر ہندو مسلم فسادات تھے۔ معین ایک عجیب گڑبڑ میں گرفتار ہو گیا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ بے سوچے سمجھے ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ اپنا کاروبار سمیٹ کر اس کو کسی اچھے گاہک کے پاس بیچ ڈالے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور اپنا سارا روپیہ کراچی کے بنک میں جمع کرادیا اور زہرہ سے مل کر اس نے اپنے ارادے کا اظہار کیا کہ وہ بمبئی چھوڑ کر کراچی جانا چاہتا ہے، مگر اکیلا نہیں، زہرہ اس کے ساتھ ہو گی۔ زہرہ فوراً مان گئی۔ ایک ہفتے کے بعد دونوں میاں بیوی بن کر کراچی کے ایک خوب صورت ہوٹل میں تھے۔ بمبئی میں زہرہ کے والدین پر کیا گزری۔ اس کا انھیں کچھ علم نہیں اور نہ انھیں اس کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنے کی خواہش تھی۔ دونوں اپنی محبت کی پیاس بجھانے میں مگن تھے۔ ان کو اس حادثے کی بھی خبر نہیں تھی کہ ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ بہر حال جب لاکھوں انسانوں کا خون فرقہ وارانہ فسادات میں پانی کی طرح بہہ گیا اور کراچی میں پاکستان کے قیام کی خوشی میں چراغاں ہوا تو مسٹر معین اور مسز معین کو معلوم ہوا کہ وہ پاکستان میں ہیں۔ اور مسٹر آدم بھائی باٹلی والا اور مسز آدم بھائی باٹلی والا ہندوستان میں۔ وہ بہت خوش ہوئے کہ اب وہ محفوظ تھے۔ جب افراط و تفریط کا عالم کسی قدر کم ہوا تو مسٹر معین نے اپنے بمبئی کے کاروبار کے حوالے سے ایک بہت بڑی دکان اپنے نام الاٹ کرالی اور اس میں موٹروں کا کاروبارشروع کردیا جو چند برسوں میں چل نکلا۔ اس دوران میں ان کے یہاں دو بجے پیدا ہوئے۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ لڑکا جب چار برس کا ہوا تو انھوں نے اس کو اپنے ایک دوست کے حوالے کردیا جوانگلستان جارہا تھا۔ مسٹر معین چاہتے تھے کہ اس کی تربیت وہیں ہو کیوں کہ کراچی کی فضا ان کے نزدیک بڑی گندی تھی۔ لڑکی جو اپنے بھائی سے ایک برس چھوٹی تھی، گھر ہی میں کھیلتی کودتی رہتی۔ اس کے لیے مسٹر معین نے ایک انگریز نرس مقرر کر رکھی تھی۔ اس بات پر زور دینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ مسٹر معین کو اپنی بیوی سے بے پناہ محبت تھی۔ طبعاً وہ کم گو اور شریف طبیعت تھے۔ وہ زہرہ سے جب اپنی محبت کا اظہار کرتے تو بڑے مدھم سروں میں۔ بڑے وضع دار قسم کے آدمی تھے۔ کلبوں میں جاتے، زہرہ ان کے ساتھ ہوتی مگر وہ دوسرے ممبروں کی طرح بے وجہ ہنسی قہقہوں میں کبھی شامل نہ ہوتے۔ وسکی کے دو پیگ آہستہ آہستہ پیتے جیسے کوئی قرض ادا کررہے ہیں۔ ناچ شروع ہوتا تو زہرہ کے ساتھ تھوڑی دیر ناچ کر گھر واپس چلے آتے جو انھوں نے ایک ہندو سے کراچی آنے کے بعد خرید لیا تھا۔ زہرہ کبھی کبھی اپنے خاوند کی اجازت سے دوسروں کے ساتھ بھی ناچ لیتی تھی۔ اس میں مسٹر معین کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ مگر جب انھوں نے دیکھا کہ زہرہ ان کے ایک دوست مسٹر احسن سے جو ادھیڑ عمر کے بہت بڑے مالدار اور تاجر تھے، ضرورت سے زیادہ التفات برت رہی ہے تو ان کو بڑی الجھن ہوئی، مگر انھوں نے زہرہ پر اس کا اظہار کبھی نہ کیا۔ کیوں کہ وہ سوچتے تھے کہ احسن اور زہرہ میں عمر کا اتنا تفادت ہے۔ پھر وہ دو بچوں کی ماں ہے۔ یہ صرف رقابت کا جذبہ ہے جو ان کی اپنی محبت کی پیداوار ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بات بھی تھی کہ سوسائٹی کے جن اونچے حلقوں میں ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا، اس میں بیویوں سے غیر مردوں کے التفات کو بری نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تھا بلکہ اسے فیشن سمجھا جاتا تھا کہ ایک کی بیوی کسی دوسرے آدمی کے ساتھ ناچے اور اس کی بیوی پہلے کے شوہر کے ساتھ، ایسی ادلا بدلی عام تھی۔ پہلے مسٹر احسن گاہے گاہے، جب کوئی پارٹی دی جائی تو، مسٹر معین کے ہاں آیا کرتے تھے مگر کچھ عرصے سے ان کا باقاعدہ آنا جانا شروع ہو گیا تھا۔ ان کی غیر موجودگی میں بھی وہ آجاتے اور گھنٹوں زہرہ کے پاس بیٹھے رہتے۔ یہ انھیں اپنے ملازموں سے معلوم ہوا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے زہرہ سے کچھ نہ کہا۔ دراصل ان کی زبان پر ایسے لفظ آتے ہی نہیں تھے جن سے وہ شکوک کا اظہار کریں۔ وہ مجبور تھے اس لیے کہ ان کی پرورش ہی ایسے ماحول میں ہوئی تھی، جہاں ایسے معاملوں میں لب کشائی معیوب خیال کی جاتی تھی۔ روشن خیالی کا تقاضا یہی تھا کہ وہ خاموش رہیں۔ یوں تو انھوں نے ایک بڑے معرکے کا عشق کیا تھا مگر دماغ ان کا تاجرانہ تھا۔ دل اور دماغ میں کوئی اتنا بڑا فاصلہ تو نہیں ہوتا مگر موٹروں کا کاروبار کرتے کرتے اور دولت کے انبار سمیٹتے سمیٹتے بہت سا چاندی سونا ان دونوں کے درمیان ڈھیر ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ جھگڑے ٹنٹوں سے انھیں نفرت تھی۔ وہ خاموش زندگی بسر کرنے کے قائل تھے جس میں کوئی ہنگامہ نہ ہو۔ لڑکی تھی، وہ اپنی انگریز نرس کے ساتھ کھیلتی رہتی تھی۔ جب ان کے دل میں اس کا پیارا ابھرتا تو وہ اسے اپنے پاس بلا کر کچھ عرصے کے لیے اپنی گود میں بٹھاتے اور انگریزی میں پیار کرکے اسے پھر نرس کے حوالے کردیتے۔ جب کاروبار سے فارغ ہو کر گھر آتے تو زہرہ کے ہونٹوں کا بوسہ لیتے اور ڈنر کھانے میں مشغول ہو جاتے۔ اگر مسٹر احسن ان سے پہلے وہاں موجود ہوتے تو وہ ان کو بھی ڈنر میں شامل کرالیتے۔ ایسے موقعوں پر، ضرورت بے ضرورت، زہرہ مسٹر احسن کی خاطر د اری کرتی۔ ان کی پلیٹ مختلف سالنوں سے بھر دیتی اور ان کو بڑے محبت بھرے انداز میں مجبور کرتی کہ وہ تکلف نہ کریں۔ جب وہ زہرہ کا یہ ناروا التفات دیکھتے تو ان کے دل اور دماغ کے درمیان سونے چاندی کے ڈھیر کچھ پگھل سے جاتے اور دونوں آپس میں سرگوشیاں کرنا شروع کردیتے۔ مسٹر احسن رنڈوے تھے۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ کراچی میں موتیوں کے سب سے بڑے تاجر تھے۔ کروڑ پتی۔ ہر سال مسٹر معین سے موٹروں کے نئے ماڈل خریدتے تھے۔ زہرہ کی سالگرہ پر انھوں نے دو بڑے قیمتی ہار تحفے کے طور پر دیے تھے۔ جب مسٹر معین نے انھیں قبول کرنے سے اپنے مخصوص دھیمے انداز میں انکار کیا تھا تو مسٹر احسن نے کہا تھا۔
’’مجھے صدمہ ہو گا اگر یہ ہار مسز معین کے گلے کی زینت نہ بنے۔ ‘‘
یہ سن کر زہرہ نے دونوں ہار اٹھا کر مسٹر احسن کو دے دیے اور اس سے کہا
’’لیجیے آپ اپنے ہاتھوں سے پہنا دیجیے۔ ‘‘
جب ہار زہرہ کے گلے میں پہنا دیے گئے تو بوجہ مجبوری مسٹر معین کو اپنے دوست مسٹر احسن کی ہاں میں ہاں ملانا پڑی کہ بحیرہ عرب کے پانیوں میں سپیوں نے ان ہاروں کے موتی خاص طور پر زہرہ ہی کے لیے پیدا کیے تھے۔ ایش ٹرے میں رکھا ہوا سگار آہستہ آہستہ سلگ کر نصف کے قریب خاکستر اور سفید راکھ میں تبدیل ہوچکا تھا۔ پاس ہی آرام کرسی پر مسٹر معین اسی طرح اپنے چوڑے ماتھے پر ایک ہاتھ رکھے گہری سوچ میں غرق تھے۔ وہ اتنا کبھی تردو نہ کرتے مگر اب ان کی عزت کا سوال درپیش تھا۔ آج انھوں نے اپنے کانوں سے ایسا مکالمہ سنا تھا۔ ظاہر ہے کہ زہرہ اور احسن کے درمیان جس نے سکون پسند طبیعت کو درہم برہم کردیا تھا۔ چوڑے ماتھے پر ہاتھ رکھے وہ کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔ ان کے کان بار بار وہ مکالمہ سن رہے تھے جو ان کی بیوی اور ان کے دوست کے درمیان بڑے کمرے میں ہوا تھا۔ دکان میں ایک موٹر کاسودا کرتے کرتے ان کی طبیعت اچانک ناساز ہو گئی، چنانچہ یہ کام منیجر کے حوالے کرکے وہ گھر روانہ ہو گئے تاکہ آرام کریں۔ کریپ سول شوز پہنے ہوئے تھے اس لیے کوئی آہٹ نہ ہوئی۔ دروازے کے پاس پہنچے تو انھیں زہرہ کی آواز سنائی دی۔
’’احسن صاحب!میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں ان سے طلاق حاصل کرلوں گی۔ ‘‘
احسن بولے۔
’’مگر کیسے۔ کیونکر؟‘‘
’’میں آپ سے کئی بار کہہ چکی ہوں کہ وہ میری کوئی بات نہیں ٹالیں گے۔ ‘‘
’’تعجب ہے!‘‘
’’اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ وہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ انھوں نے آج تک میری ہر فرمائش پوری کی ہے۔ میں اگر ان سے کہوں کہ ان پانچ منزلوں سے نیچے کود جائیں تو وہ یقیناً کود جائیں گے۔ ‘‘
’’حیرت ہے۔ ‘‘
’’آپ کی حیرت دور ہو جائے گی جب میں کل ہی آپ کو طلاق نامہ دکھا دوں گی۔ ‘‘
یہ مکالمہ سن کر مسٹر معین اپنی ناسازی طبع کو بھول گئے اور الٹے پاؤں واپس دکان پر چلے گئے، جہاں ابھی تک موٹر کا سودا طے ہورہا تھا۔ مگر انھوں نے اس سے کوئی دلچسپی نہ لی اور اپنے دفتر میں چلے گئے۔ سگار سلگایا مگر ایک کش لینے کے بعد اسے ایش ٹرے میں رکھ دیا اور سر پکڑ کر آرام کرسی پر بیٹھ گئے۔ ظاہر ہے کہ زہرہ نے جو کچھ کہا، وہ مسٹر معین کی غیرت کے نام پر ایک زبردست چیلنج تھا۔ انھوں نے اپنے چوڑے ماتھے پرسے ہاتھ اٹھایا اور ایش ٹرے میں سگار کو بجھا کر ایک نیا سگار نکالا اور اسے سلگایا۔ آہستہ آہستہ وہ ہونٹوں میں اسے گھمانے لگے۔ پھر ایک دم اٹھے اور دکان سے باہر نکل کر موٹر میں سوار ہوئے اور گھر کا رخ کیا۔ ان کے دوست مسٹر احسن جا چکے تھے۔ زہرہ اپنے کمرے میں سنگار میز کے پاس بیٹھی میک اپ کرنے میں مشغول تھی۔ جب اس نے آئینے میں معین کا عکس دیکھا تو بڑے مڑے ہونٹوں پر لپ اسٹک ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔
’’آپ آج جلدی آگئے۔ ‘‘
’’ہاں، طبیعت ٹھیک نہیں۔ ‘‘
صرف اتھا کہہ کر وہ بڑے کمرے میں جا کر صوفے پر دراز ہو گئے۔ سگار ان کے ہونٹوں میں بڑی تیزی سے گھومنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد بنی ٹھنی زہرہ آئی۔ مسٹر معین نے اس کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اس کے حسن کا اعتراف کیا۔ یہ اعتراف وہ متعدد مرتبہ اپنے دل میں کر چکے تھے۔ دراز قد، بہت موزوں و مناسب گدرایا ہوا جسم، بڑی بڑی غلافی آنکھیں، شربتی رنگ کی۔ اس پر ہر لباس سجتا تھا۔ بوہری لباس بھی جس سے معین کو سخت نفرت تھی۔ جب زہرہ پاس آئی اور اس نے ایک ادا کے ساتھ اپنے خاوند کا مزاج پوچھا تو وہ خاموش رہے۔ جب وہ اس کے پاس بیٹھ گئی تو معین صوفے پر سے اٹھے اور منہ سے سگار نکال کر بڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنی بیوی سے مخاطب ہوا۔
’’زہرہ!کیا تم مجھ سے طلاق لینا چاہتی ہو؟‘‘
زہرہ ایک لحظے کے لیے بوکھلا سی گئی۔ مگر فوراً ہی سنبھل کر اس نے اپنے خاوند سے پوچھا۔
’’آپ کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘
’’میں نے تمہاری اور احسن کی گفتگو سن لی تھی۔ ‘‘
معین کے لہجے میں غم و غصے کا شائبہ تک نہ تھا۔ زہرہ خاموش رہی۔ معین نے سگار کا ایک کش لیا اور کہا
’’میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا۔ ‘‘
زہرہ اٹھ کھڑی ہوں۔
’’کیوں؟‘‘
معین نے کچھ سوچا۔
’’میں سوسائٹی میں اپنے نام اور اپنی عزت پر حرف آتا نہیں دیکھ سکتا۔ ‘‘
’’لیکن۔ ‘‘
زہرہ اٹک گئی۔
’’لیکن میں اس سے وعدہ کر چکی ہوں۔ ‘‘
’’تو کوئی دوسری راہ تلاش کرنی چاہیے۔ طلاق میں کبھی نہیں دوں گا۔ اس لیے کہ میری عزت کا سوال ہے۔ ویسے مجھے تمہارے وعدے کا پاس ہے۔ ‘‘
یہ کہہ کر انھوں نے سگار ایش ٹرے میں رکھ دیا۔ میاں بیوی تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔ آخر زہرہ فکر مند لہجے میں بولی: ’دلیکن میں طلاق لیے بغیر اس سے شادی کیسے کرسکتی ہوں؟‘‘
’’کیا تم واقعی اس سے شادی کرنا چاہتی ہو؟‘‘
زہرہ نے اثبات میں سر ہلایا تو معین نے اس سے سوال کیا:
’’کیوں؟‘‘
زہرہ خاموش رہی۔ معین نے ایک اور سوال کیا
’’کیا اس لیے کہ تمہارے دل میں اب میری محبت نہیں ہے؟‘‘
’’میرے دل میں آپ کی محبت ویسی کی ویسی موجود ہے، اور اس کے لیے میں خدا کی قسم کھانے کو تیار ہوں۔ لیکن معلوم نہیں کیوں میرا جی چاہتا ہے کہ احسن کے ساتھ رہوں۔ ‘‘
یہ کہہ کر زہرہ صوفے پر بیٹھ گئی۔ معین نے اپنے منہ سے سگار نکالا اور کہا:
’’تم اس کے ساتھ رہ سکتی ہو۔ ‘‘
زہرہ چونک کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’مگر ایک شرط پر‘‘
معین نے سگار ایش ٹرے میں بجھاتے ہوئے کہا
’’تم میرے پاس بھی رہا کرو گی۔ تاکہ لوگوں کو کسی قسم کا شبہ نہ ہو۔ ان کو ایسی باتیں بنانے کا موقع نہ ملے کہ معین چونکہ اپنی بیوی کی فرمائشیں پوری نہ کرسکا اس لیے اس نے طلاق لے کر ایک کروڑ پتی سے شادی کرلی، یا یہ کہ معین کی بیوی بدکردار تھی اس لیے اس نے طلاق دے دی۔ ‘‘
’’بدکردار تو میں ہوں۔ ‘‘
زہرہ نے اپنی موٹی موٹی غلافی آنکھیں ایک لحظے کے لیے جھکالیں۔ معین نے اسے دلاسا دیا۔
’’اس کا ثبوت صرف میرا اعتراف ہے جو میری زبان پر کبھی نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ یہ میری اپنی عزت اور میرے ناموس پر حرف لانے کا موجب ہو گا۔ اس کے علاوہ مجھے تم سے محبت ہے۔ میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ تم ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہو جاؤ۔ ‘‘
یہ کہہ کر معین کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کے سینے کا سارا بوجھ اتر گیا ہے۔ زہرہ نے احسن کو ساری بات بتا دی۔ وہ راضی ہو گیا۔ چنانچہ زہرہ اس کے پاس کئی کئی دن رہنے لگی۔ احسن زہرہ کے جسمانی خلوص اور اس کے خاوند کے بے مثال ایثار سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے تھوڑے ہی عرصے کے بعد وصیت لکھ کر اپنی تمام جائیداد کی وارث زہرہ قرار دی۔ زہرہ نے اس کا ذکر اپنے خاوند سے نہ کیا۔ اس کے وقار کو صدمہ پہنچتا۔ وہ اپنی لڑکی کو دیکھنے اور معین سے ملنے کے لیے اکثر آتی اور بعض اوقات چند راتیں بھی وہیں گزارتی۔ میاں بیوی کی یہ نئی زندگی بڑی ہموار گزرتی رہی کہ اچانک ایک دن مسٹر احسن حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث انتقال کرگئے۔ نماز جنازہ میں سوسائٹی کی اونچی اونچی ہستیوں کی صف میں مسٹر معین بھی شریک تھے۔ انھوں نے اپنے مرحوم دوست کی مغفرت کے لیے صدق دل سے دعا کی اور گھر آکر مناسب و موزوں الفاظ میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کرتے ہوئے زہرہ کو دلاسا دیا۔ زہرہ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور وہ گن گن کر احسن کی صفات بیان کررہی تھی۔ آخر میں نے اس نے اپنے خاوند کو بتایا کہ وہ اپنی ساری جائیداد اس کے نام کر گیا ہے۔ یہ سن کر مسٹر معین خاموش رہے اور زہرہ سے اس بارے میں کوئی استفسار نہ کیا۔ عدالت کے ذریعے جب زہرہ کو مرحوم احسن کی ساری جائیداد کا قبضہ مل گیا اور وہ خوش خوش گھر آئی تو دیکھا کہ ایک مولوی قسم کا آدمی صوفے پر بیٹھا ہوا ہے۔ ہاتھ میں اس کے ایک کاغذ ہے۔ اسکو ایک نظر دیکھ کر وہ اپنے شوہر سے مخاطب ہوئی:
’’قبضہ مل گیا ہے۔ ‘‘
مسٹر معین نے کہا۔
’’بہت خوشی کی بات ہے۔ ‘‘
پھر انھوں نے مولوی صاحب کے ہاتھ سے کاغذ لیا اور زہرہ کی طرف بڑھا دیا۔
’’یہ لو!‘‘
زہرہ نے کاغذ لے کر پوچھا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘
مسٹر معین نے بڑے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔
’’طلاق نامہ۔ ‘‘
زہرہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی:
’’طلاق نامہ‘‘
’’ہاں‘‘
یہ کہہ کر معین نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک چیک نکالا:
’’یہ تمہارا حق مہر ہے۔ بیس ہزار روپے۔ ‘‘
زہرہ اور زیادہ بھونچکی رہ گئی۔
’’مگر۔ یہ سب کیا ہے؟‘‘
’’یہ سب یہ ہے کہ مجھے اپنی عزت اور اپنا ناموس بہت پیارا ہے۔ جب میری جان پہچان کے حلقوں کو یہ معلوم ہو گا کہ احسن تمہارے لیے ساری جائیداد چھوڑ کر مرا ہے تو کیا کیا کہانیاں گھڑی جائیں گی۔
’’یہ کہہ کر وہ مولوی سے مخاطب ہوا:
’’آئیے قاضی صاحب!‘‘
قاضی اٹھا۔ جاتے ہوئے مسٹر معین نے پلٹ کر اپنی مطلقہ بیوی کی طرف دیکھا اور کہا:
’’یہ بلڈنگ بھی تمہاری ہے۔ رجسٹری کے کاغذات تمہیں پہنچ جائیں گے۔ اگر تم نے اجازت دی تو میں کبھی کبھی تمہارے پاس آیا کروں گا۔ خدا حافظ‘‘
سعادت حسن منٹو