کالج کے زمانے میں اس کتاب کا بہت چرچا تھا۔ مکتب کی راہداریوں میں بریک کے دوران یہ گفتگو ہوتی:
"دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ پڑھا ؟”
"نہیں۔۔۔”
"ارے۔۔۔۔۔ کیوں؟”
"کتاب نہیں مل رہی۔۔۔۔”
"بھائی مجھ سے مستعار لے لو مگر پڑھو۔۔۔”
پھر جب میں نے یہ کتاب پڑھی تو اک کیف کی کیفیت طاری ہو گئی۔ مشکل سے 100 صفحات کی کتاب مگر اتنی اثر انگیز۔۔۔۔۔!!! بلا شبہ مرزا فرحت اللہ بیگ کی یہ کتاب اردو ادب کا شاہکار ہے۔ یہ ایک خیالی اور تمثیلی مشاعرے کی داستان ہے۔ اگر کسی نے دہلی کی ٹکسالی زبان کا چٹخارہ لینا ہے اور 1857 سے پہلے کی دہلی کی فلم دیکھنی ہے تو یہ کتاب پڑھے اور نہال ہو۔
اردو کے پہلے خاکہ نگار مرزا فرحت اللہ بیگ (1947- 1883) مجھے ہمیشہ سے بہت اچھے لگتے ہیں۔ ان کی طلسماتی شخصیت میں ایک کشش ہے، ایک urbane touch ہے اور ان کی تحریر میں touch of class ہے۔ 1927 میں ان کا بے مثال خاکہ "نذیر احمد کی کہانی – کچھ ان کی کچھ اپنی زبانی” شائع ہوا جس نے اردو ادب میں خاکہ نگاری کی بنیاد رکھی۔
دہلی کے ایک یادگار مشاعرے کی تفصیل تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ مولوی کریم الدین "طبقات الشعرائے ہند” میں لکھتے ہیں کہ 1846 (1261ھ) میں ایک مشاعرہ ان کے مکان پر ہوا۔ یہ مشاعرہ ایک مضمون کی شکل میں سب سے پہلے رسالہ اردو اور رسالہ الناظر لکھنئو میں شائع ہوا۔ اس میں ہر شاعر کا حال مع اشعار درج ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے اس مشاعرے کو بنیاد بنا کر ایک تمثیلی مشاعرے پر مضمون لکھا جو انجمن ترقی اردو(ہند) کے رسالہ اردو میں 1927 میں شائع ہوا۔ 1857 سے قبل کے دلی کے سماجیاتی مطالعے کے لئے یہ اہم ترین ماخذ ہے۔ مشاعرے کے اس مضمون میں مرزا صاحب نے 65 مختلف افراد کی سراپا نگاری کی ہے۔
مرزا فرحت اللہ بیگ شخصیت کا حال یوں بیان کرتے ہیں گویا آپ اس شخص کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ سراپا نگاری پر اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ بک کارنر جہلم کا بہت شکریہ کہ انہوں نے یہ تاریخی کتاب 2018 میں پھر سے شائع کر کے ادب عالیہ کی ترویج کی۔
ذیل میں بلترتیب بہادر شاہ ظفر، غالب، ذوق اور مومن کی سراپا نگاری دیکھئے اور مرقعے ملاحظہ فرمائیے جو مرزا صاحب نے اس کتاب میں درج فرمائے ۔
چوبدار نے آواز دی
ادب سے نگاہ روبرو
حضرت جہاں پناہ سلامت
آداب بجا لاؤ
دہرا ہو کر سات تسلیمات بجا لایا اور نذر گزاری۔ نذر دیتے وقت ذرا آنکھ اونچی ہوئی تو وہاں کا رنگ دیکھا۔ حضرت پیر و مرشد ایک چاندی کی پلنگڑی پر لیٹے ہوئے تھے۔ پائنتی مرزا فخرو بیٹھے پاؤں دبا رہے تھے۔ دہلی میں کون ہے جس نے حضرت ظل اللہ کو نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ میانہ قد، بہت نحیف جسم، کسی قدر لمبا چہرہ، بڑی بڑی روشن آنکھیں – آنکھوں کے نیچے کی ہڈیاں بہت ابھری ہوئی، لمبی گردن، چوکا ذرا اونچا، پتلی ستواں ناک، بڑا دہانہ، گہری سانولی رنگت، سر منڈا ہوا، چھدری ڈاڑھی – کلوں پر بہت کم، ٹھوڑی پر زیادہ، لبیں کتری ہوئی – ستر سال سے اونچی عمر تھی۔ بال سفید بہق ہو گئے تھے لیکن پھر بھی ڈاڑھی میں اکا دکا سیاہ بال تھا۔ چہرے پر جھریاں تھیں لیکن باوجود اس پیرانہ سالی اور نقاہت کے آواز میں وہی کرارہ پن تھا۔ سبز کم خواب کا ایک بر کا پاجامہ اور سفید ڈھاکے کی ململ کا کرتہ زیب بدن تھا۔ سامنے ایک چوکی پر جامہ دار کی خفتان اور کار چوبی چو گوشہ ٹوپی رکھی ہوئی تھی۔ اب رہے مرزا فخرو تو عین مین اپنے باپ کی تصویر تھے۔ 22، 23 برس عمر تھی۔ فرق تھا تو صرف یہی کہ وہ بڈھے تھے، یہ جوان۔ ان کا رنگ بڑھاپے کی وجہ سے ذرا کلونس لے آیا تھا، ان کا کھلا گیہواں رنگ تھا۔ ان کی ڈاڑھی سفید تھی، ان کی سیاہ – ورنہ یہی معلوم ہوتا تھا کہ ایک بادشاہ لیٹے ہیں اور ایک بیٹھے ہیں۔
دروازے سے گزر کر مختصر سا صحن ہے اور سامنے ہی دالان در دالان۔ جب میں پہنچا تو اندر کے دالان میں گاؤ تکیہ سے لگے بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔ مرزا نوشہ کی عمر پچاس سال کی ہو گی۔ حسین اور خوبرو آدمی ہیں۔ قد اونچا اور ہاڑ بہت چوڑا چکلا۔ موٹا موٹا نقشہ اور سرخ سفید رنگت ہے لیکن اس میں کچھ کچھ زردی جھلکتی ہے۔ ایسے رنگ کو محاورے میں چمپئی کہا جاتا ہے۔ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے ہیں، ڈاڑھی بھری ہوئی مگر گھنی نہیں ہے۔ سر منڈا ہوا اور اس پر پوستین کی ٹوپی ہے جو کلاہ پاپاخ سے ملتی جلتی ہے۔ ایک بر کا سفید پاجامہ، سفید ململ کا انگرکھا، اس پر ہلکے زرد زمین کی جامہ دار کا جغہ- میری آہٹ پا کر لکھتے لکھتے آنکھ اونچی کی۔ میں نے آداب کیا، سلام کا جواب دیا اور آنکھوں سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
جب میں پہنچا تو استاد صحن میں بان کی کھری چارپائی پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ دوسری چارپائی پر ان کے چاہیتے شاگرد حافظ غلام رسول ویران بیٹھے تھے۔ یہ اندھے ہیں اور ان ہی سے ہوشیار رہنے کے لئے حضرت جہاں پناہ (بہادر شاہ ظفر) نے ارشاد فرمایا تھا۔ استاد ذوق قد و قامت میں متوسط اندام ہیں۔ رنگ اچھا سانولا ہے، چہرے پر چیچک کے داغ ہیں۔ آنکھیں بڑی بڑی اور روشن اور نگاہیں تیز ہیں۔ چہرے کا نقشہ کھڑا کھڑا ہے۔ اس وقت سفید تنگ پاجامہ، سفید کرتہ اور سفید ہی انگرکھا پہنے ہوئے تھے۔ سر پر گول چندوے کی ململ کی ٹوپی تھی۔ میں نے آداب عرض کیا۔ انہوں نے فرمایا "بیٹھو بیٹھو-” میں نے عرض کی کہ:
” میرا ارادہ قاضی حوض پر ایک مشاعرہ شروع کرنے کا ہے۔ 14 رجب تاریخ مقرر ہوئی ہے۔ اگر حضور بھی از راہ بندہ نوازی قدم رنجہ فرمائیں تو بعید از کرم نہ ہو گا”
میرا اتنا کہنا تھا کہ حافظ ویران تو چراغ پا ہو گئے، کہنے لگے:
"جائیے جائیے! کہاں کا مشاعرہ نکالا ہے۔ استاد کو فرصت نہیں ہے۔ ان مرزا لے پالک (مرزا غالب) کے پاس کیوں نہیں جاتے جو خوامخواہ ان کو آ کر دق کرتے ہو۔”
اندر کے دالان میں بیچوں بیچ قالین بچھا ہوا ہے۔ قالین پر گاؤ تکیے سے لگے حکیم صاحب بیٹھے ہیں۔ سامنے حکیم سکھا نند المتخلص بہ رقم اور مرزا رحیم الدین حیا مودب دو زانو بیٹھے ہیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی دربار ہو رہا ہے کہ کسی کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے اور بلا ضرورت بولنے کا یارا نہیں۔ حکیم مومن خان کی عمر تقریبا” چالیس سال کی تھی۔ کشیدہ قامت، سرخ سفید رنگ تھا جس میں سبزی جھلکتی تھی۔ بڑی بڑی روشن آنکھیں، لمبی لمبی پلکیں، کھنچی ہوئی بھنویں، ستواں ناک، خشخاشی ڈاڑھی، بھرے بھرے ڈنڈ، پتلی کمر، چوڑا سینہ اور لمبی انگلیاں، سر پر گھونگھریالے لمبے لمبے بال، کاکلوں کی شکل میں کچھ تو پشت پر اور کچھ کندھوں پر پڑے ہوئے تھے۔
کان کے قریب تھوڑے سے بالوں کو موڑ کر زلفیں بنا لیا تھا۔ بدن پر شربتی ململ کا نیچی چولی کا انگرکھا تھا لیکن اس کے نیچے کرتہ نہ تھا اور جسم کا کچھ حصہ انگرکھے کے پردے میں سے دکھائی دیتا تھا۔ گلے میں سیاہ رنگ کا فیتہ تھا۔ اس میں چھوٹی سی سنہری تعویذ۔ کاکریزی رنگ کے دوپٹہ کو بل دے کر کمر میں لپیٹ لیا تھا اور اس کے دونوں کونے سامنے پڑے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں پتلا سا خار پشت، پاؤں میں سرخ گلبدنی کا پاجامہ – مہریوں سے تنگ، اوپر جا کر کسی قدر ڈھیلا۔ کبھی کبھی ایک بر کا پائجامہ بھی پہنتے تھے، مگر کسی قسم کا بھی ہو ریشمی اور قیمتی ہوتا تھا۔ چوڑا سرخ نیفہ، انگرکھے کی آستین آگے سے کٹی ہوئی، کبھی لٹکتی رہتی ہیں اور کبھی الٹ کر چڑھا لیتے ہیں۔ سر پر گلشن کی بڑی دو پلڑی ٹوپی۔ اس کے کنارے پر باریک لیس۔ ٹوپی اتنی بڑی تھی کہ سر پر اچھی طرح منڈھ کر آ گئی تھی۔ اندر سے مانگ اور ماتھے کا کچھ حصہ اور بال صاف جھلکتے تھے۔ غرض یہ کہ نہایت خوش پوش اور جامہ زیب آدمی تھے۔ مولوی امام بخش صاحب صہبائی نے کہا:
"یہ پہلے کالج میں میرے شاگرد تھے، اب مطبع کھول کیا ہے، وہاں مشاعرہ کرنا چاہتے ہیں، آپ کو تکلیف دینے آئے ہیں”
حکیم صاحب نے ہنس کر کہا:
"بس صاحب مجھے تو معاف ہی کیجیے۔ اب دہلی کے مشاعرے شریفوں کے جانے کے قابل نہیں رہے۔ ایک صاحب ہیں (یہ استاد ذوق اور شہزادوں کی طرف اشارہ تھا) وہ اپنی امت لے کر چڑھ آتے ہیں، شعر سمجھنے کی تو کسی کو تمیز نہیں، مفت میں واہ واہ! سبحان اللہ! سبحان اللہ! کا غل مچا کر طبیعت کو مغنض کر دیتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ:
صائب دو چیز می شکند قدر شعر را
تحسین ناشناس و سکوت سخن شناس
دوسرے صاحب ہیں وہ ہدہد کو ساتھ لئے پھرتے ہیں (یہ بادشاہی اور خاندانی طبیب حکیم آغا جان عیش کی طرف اشارہ تھا۔ میاں ہدہد کو پال کر انہوں نے سب سے بگاڑ لی تھی۔ میاں ہدہد واہی تباہی بولتے اور استادوں پر حملے کرتے تھے) اور خوامخواہ استادوں پر حملہ کرتے ہیں۔ خود تو میدان میں نہیں آتے، اپنے نااہل پٹھوں کو مقابلے میں لاتے ہیں۔”
وحید احمد
19 جون 2024