- Advertisement -

جیسے راکھ دمک اٹھتی ہے ، جیسے غبار چمکتا ہے

سعود عثمانی کی ایک اردو غزل

جیسے راکھ دمک اٹھتی ہے ، جیسے غبار چمکتا ہے

دور کہیں اس تاریکی میں کوئی دیار چمکتا ہے

تم تک اس کی کرنیں شاید اب پہنچی ہوں لیکن دوست

یہ تارہ تو میرے دل مین آخری بار چمکتا ہے

ایک شکستہ بستی میں اب کوئی دیا موجود نہیں

لیکن ٹوٹے آئینوں کا اک انبار چمکتا ہے

دریا تک تو آ پہنچے ہیں آگے کیا ہے علم نہیں

پیاسے اونٹ بھڑکتے ہیں تشنہ رہوار چمکتا ہے

سعود عثمانی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سعود عثمانی کی ایک اردو غزل