ٍشامیانوں کی وضاحت تو نہیں کی گئ ہے
آج خیرات ہے ، دعوت تو نہیں کی گئ ہے
دیکھتی ہے ہمیں دنیا،اسے روکا جاۓ
ساتھ رہتے ہیں ،محبت تو نہیں کی گئ ہے
ہم نے کاسہ ہی بڑھایا ہے دعا دیتے ہوۓ
در بہ در جا کے شکایت تو نہیں کی گئ ہے
راستہ ہے اسے ملنے کی جگہ کہتے ہیں
آپ سے ملنے کی زحمت تو نہیں کی گئ ہے
آج پھر آئینہ دیکھا ہے کئ سال کے بعد
کہیں اس بار بھی عجلت تو نہیں کی گئ ہے
پہلی دھڑکن ہی میاں وزن میں تھی،شکر کرو
شاعری آج عنایت تو نہیں کی گئ ہے
فیصل عجمی