آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمز

ترقی یا پستی

ایک اردو تحریر از یوسف برکاتی

 

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
بدلتے وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی اس کے رہن سہن اس کے لباس اس کے طور طریقے اس کا اٹھنا بیٹھنا اس کا کھانا پینا یہاں تک کہ اس کے اپنوں سے رشتوں میں بھی فرق آتا رہتا ہے لیکن آج کے اس معاشرے میں انسان جس ترقی کی طرف گامزن نظر آتا ہے جس کو ترقی کا سفر کہتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ واقعی ترقی ہے یا پھر ہم پستی کی طرف چلے جارہے ہیں اگر ہم اپنے پچھلوں کی زندگی کا بغور جائزہ لیں اور اس کا آج کے دور سے موازنہ کریں تو ہمیں شاید اس سوال کا جواب مل جائے اب دیکھیں
ایک بار ایک سیٹھ نے ایک بہت بڑا ڈپارٹمنٹل اسٹور کھولا اور ایک بزرگ کو افتتاح کے لیے بلایا جب اس اسٹور کا باقائدہ افتتاح ہوگیا تو اس کے مالک نے ان بزرگ کی بڑی عزت کی بڑی عزت افزائی کرنے کے بعد ان کو بتایا کہ دیکھیں یہاں پر اکیس ہزار چیزیں ہیں اس اسٹور میں بیچنے کے لیے آپ کو جو اچھا لگتا ہے وہ آپ لے لیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والو

وہ بزرگ مسکرائے اور کہنے لگے کہ مجھے ان میں سے ایک بھی چیز زندگی کے لئے ضروری نہیں لگتی بلکہ مجھے تو اس بات کا تعجب ہوتا ہے کہ انسان ان تمام اشیاء کی خاطر اتنی فضول خرچی کیوں کرتا ہے اور آخر ان سبھی غیر ضروری چیزوں کا استعمال کرتا کہاں ہے؟ اب دیکھیے ایئر فریشنر کے بنا کس کی سانس رک گئی؟ فیس واش کا استعمال نہیں کیا تو کون کالا ہو گیا؟ ہوم تھییٹر لاکر کتنے لوگ کلاکار بن گئے؟ کنڈیشنر سے کس کے بال ملائم اور کالے ہوئے ہیں ارے جو ڈائننگ ٹیبل استعمال کرتے ہیں کیا ان کے گھٹنے نہیں دھکتے اب تھوڑا دماغ پر زور ڈال کر یاد کیجئے کہ ہینڈ واش کے بنا آپ کے کس دادا کے پیٹ میں کیڑے ہو گئے تھے اب دیکھیں یہ بگلہ جو ہوتا ہے وہ کس شیمپو سے نہاتا ہے ؟ مور اپنے رنگوں کو سنوارنے یا بچانے کے لیے کون سا کنڈیشنر یا فیس واش استعمال کرتا ہے؟۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں انہوں نے کہا کہ اب بتائیے کہ کسی نے خرگوش کے بال کبھی گرتے ہوئے یا سفید ہوتے ہوئے دیکھے ہیں؟ انہیلر یا بام کے بنا بھی کتے کے سونگھنےکی صلاحیت اتنی ہی تیز ہے شہد کی مکھی کا شگر لیول بنا دوائی کے بھی کنٹرول میں ہی ہے اذان کے بنا بھی مرغا روز اٹھ کر بانگ دیتا ہے دراصل انسان پیسہ خرچ کر کے دکھی ہونے کی چیزیں خود ہی خریدتا رہتا ہے نیٹ بند تو دکھی لائٹ جائے تو دکھی موبائل کا چارجر خراب تو دکھی ٹی وی کی کیبل کٹ جائے تو دکھی، مچھر مارنے کی دوائی نہ ملے تو دکھی، عورتوں کو میک اپ نہ ملے تو دکھی، میچنگ کپڑے نہیں ملے تو دکھی۔ آج کل انسان دس منٹ میں بیس طرح سے دکھی اور پریشان رہتا ہے اور اگر ان لوگوں کی بات کریں کہ جو گڑ کی روٹی یا پیاز روٹی کھا کر ہاتھوں کا تکیا بنا کر پیپل کے نیچے آرام سے سو جاتا ہے تو اسے دکھی کرنے کے لیے تو فرشتوں کو بھی نیچے آنا پڑتا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والو

آج ہر تیسرے شخص کو شوگر بلڈ پریشر اور دل کا مرض لاحق جبکہ پہلے ان بیماریوں کانام کہیں کہیں اور کبھی کبھی سننے کو ملتا تھا ایئر کنڈیشنر کو دیکھتے ہوئے ان بزرگ نے کہا کہ اج اس AC کے بغیر لوگ نہ گھر میں رہ سکتے ہیں اور ہی اپنے آفس یا دوکان میں یہاں تک کہ اب مسجدوں میں بھی اے سی لگوادیئے گئے ہیں جبکہ پہلے کھلے صحنوں والے گھروں میں قدرتی ہوا میں لوگ رہتے تھے اور کچے فرش والی مسجدوں میں نماز ادا کرکے اپنے رب کا شکر ادا کرتے تھے انہوں نے کہا کہ میں اپنی عمر کے اعتبار سے اب بھی اسی دور سے تعلق رکھتا ہوں اور آج بھی اپنی زندگی کو اسی طرح گزارنے کی کوشش کرتا ہوں جیسے شروع سے کرتا آرہا ہوں لہذہ آپ لوگوں کی پیشکش کا شکریہ یہ کہتے ہوئے وہ وہاں سے روانہ ہوگئے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والو

ان بزرگ نے جاتے جاتے وہاں پر موجود لوگوں اور خاص طور پر اسٹور کے مالکان کو یہ بات واضح کر گئے کہ اصل میں حقیقت یہ ہے کہ یہ سب دیکھا دیکھی کا کھیل ہے سچ تو یہ ہے کہ سکھی رہنے کے لیے بہت کم خرچہ ہوتا ہے لیکن دوسروں کو دکھانے میں کہ میں کتنا سکھی ہوں اسی میں بہت زیادہ خرچہ ہوتا ہے جیسے جیسے سہولتیں بڑھ رہی ہیں دکھی ہونے کے راستے بھی کھلتے جا رہے ہیں کیا سرسو کا ساگ اور مکئی کی روٹی آج دستیاب نہیں ایسا نہیں ہے لیکن آج ایسی چیزوں کا استعمال کیا رہ گیا اس کی جگہ پیزا برگر اور فاسٹ فوڈ نے جو لے لی ہے پہلے دیسی گھی کی روٹی اور گھر کا نکلا ہوا مکھن کھاکر لوگوں میں طاقت اور ہمت پیدا ہوجاتی تھی جبکہ آج کے دور میں لوگوں کے کہنے کے مطابق یہ اشیاء نقصاندہ ہیں اس لیئے لوگ ہاتھ نہیں لگاتے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والو

غور کیجیئے پہلے سارے رشتہ دار ہفتہ میں ایک بار کم از کم مل کر کسی گھر پر اکٹھے ہوتے تھے آپس میں ساتھ مل کر کھنا کھاتے تھے اور پیاراور محبت ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے تھے کیا یہ پستی تھی جبکہ آج کسی پاس اس طرح مل بیٹھنے کا وقت ہی نہیں اور کئی کئی دن تک ہم ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو ترستے ہیں کیا یہ ترقی ہے کل جب سارے لوگ اکٹھے ہوتے تھے تو ان میں غریب اور امیر کا کوئی فرق نہیں تھا تو کیا یہ جہالت اور پستی کی نشانی ہے اور آج جب کسی کے پاس دو پیسے کیا آجاتے ہیں تو وہ اپنے سے کم تر کی طرف دیکھنا اپنی توہین سمجھتا ہے تو کیا یہ تعلیم یافتہ ہونا یا ترقی کی نشانی ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والو

ہر وہ چیز جو ہمارے لیئے اتنی ضروری نہ ہو کہ ہم اس کے بغیر گزارا نہ کرسکیں تو اس پر خرچ کرنے سے بچیں اور لوگوں کے سامنے دکھاوا کرکے زندگی گزارنا چھوڑ دیں اپنی اصلی اور حقیقی زندگی کو خود بھی گزاریں اور لوگوں کے سامنے بھی اسی انداز میں پیش ہوں بس اس بات پر ضرور غور کیجیئے کہ کیا ہم جس کو پستی کہتے ہیں کیا وہ ہی پستی ہے اور ترقی کا مطلب جو ہم نے ذہنوں میں بٹھایا ہوا ہے کیا وہ ہی ترقی ہے اگر آپ کو یہ سب سچ لگتا ہےتو لوگوں کو آگاہ کیجئے اور فضول خرچ سے بچائیے خرچ ضرور کیجئے مگر ضرورت کے تحت اور اپنے آپ کو سکھی رکھنے کے لیئے لیکن دوسروں کو دکھانے کے لیے نہیں

بقول شاعر
میں دکھاوا کروں کس لیئے کس کے آگے یہاں
بروز محشر میرا حساب خدا لے گا انسان نہیں

 

محمد یوسف برکاتی

سائٹ منتظم

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button