- Advertisement -

جانے ہم یہ کن گلیوں میں خاک اڑا کر آ جاتے ہیں

ذوالفقار عادل کی ایک اردو غزل

جانے ہم یہ کن گلیوں میں خاک اڑا کر آ جاتے ہیں

عشق تو وہ ہے جس میں ناموجود میسر آ جاتے ہیں

جانے کیا باتیں کرتی ہیں دن بھر آپس میں دیواریں

دروازے پر قفل لگا کر ہم تو دفتر آ جاتے ہیں

کام مکمل کرنے سے بھی شام مکمل کب ہوتی ہے

ایک پرندہ رہ جاتا ہے باقی سب گھر آ جاتے ہیں

اپنے دل میں گیند چھپا کر ان میں شامل ہو جاتا ہوں

ڈھونڈتے ڈھونڈتے سارے بچے میرے اندر آ جاتے ہیں

میم محبت پڑھتے پڑھتے لکھتے لکھتے کاف کہانی

بیٹھے بیٹھے اس مکتب میں خاک برابر آ جاتے ہیں

روز نکل جاتے ہیں خالی گھر سے خالی دل کو لے کر

اور اپنی خالی تربت پر پھول سجا کر آ جاتے ہیں

خاک میں انگلی پھیرتے رہنا نقش بنانا وحشت لکھنا

ان وقتوں کے چند نشاں اب بھی کوزوں پر آ جاتے ہیں

نام کسی کا رٹتے رٹتے ایک گرہ سی پڑ جاتی ہے

جن کا کوئی نام نہیں وہ لوگ زباں پر آ جاتے ہیں

پھر بستر سے اٹھنے کی بھی مہلت کب ملتی ہے عادلؔ

نیند میں آتی ہیں آوازیں خواب میں لشکر آ جاتے ہیں

ذوالفقار عادل

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ذوالفقار عادل کی ایک اردو غزل