بستی میں بہت چہل پہل تھی مگر اسی کے ایک ہوٹل پر تین غبارے والے اپنے غباروں سے مبرا ڈنڈے، کسی شکست خوردہ سپاہی کی خالی بندوق کی طرح، زمین پر ڈالے سرجھکائے بیٹھے تھے۔
’’اب ہم کیا کریں گے۔‘‘
’’اُس نے رزق کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
’’اب یہاں تو ہمیں روزی ملنے کی نہیں۔‘‘
’’کہیں کسی بچی ہوئی بستی ہی اب ہمیں دو وقت کی روٹی دے سکتی۔‘‘
’’صحیح کہا کوئی بچی ہوئی بستی ہی۔۔ ۔‘‘
’’جہاں کی زمین غبارے نہیں اگاتی ہو۔‘‘
پھر تینوں نے ایک اداسی بھری نظر سامنے موجود سائن بورڈ پر لگے اشتہار پر ڈالی۔ جس پر لکھا تھا۔
’’ضبط تولید کے لئے درکار ضروری اشیاء اب محکمے کی جانب سے سب کو مفت فراہم کی جائیں گی۔ منجانب محکمہ بہبودِ آبادی‘‘
سائن بورڈ کے نیچے بہت سارے بچے غباروں سے کھیل رہے تھے۔
عامر صدیقی