آپ کا سلاماردو تحاریراسلامی گوشہاسلامی مضامین

روشنی کی سفارت ”آبجوئے نور”

ڈاکٹر کاشف عرفان کا تحریر کردہ مضمون

خوش نصیب ہیں وہ قلوب جو سر کارِ دو عالمۖ کی نسبت کے نور سے جگمگاتے ہیں۔ مبارک باد کا استحقاق رکھتے ہیں وہ قلم و قرطاس جن سے عشق رسولۖ کی خوشبو پھوٹتی ہے اور نعت مبارک کی صورت قرب و جوار کو معطر کر دیتی ہے اور معتبر ہے وہ دہَن جو سرکار کی سیرت مطہرہ اور رحمت ورافت پر لفظوں کے خزانے نثار کرتا چلا جاتا ہے اور حدیقہ قرطاسِ عالم پر حمد و نعت کے مہکتے گلابوں کی تصویر چلی جاتی ہے۔
جو بھی رستے پہ اُن کے چل نکلیں
روشنی کے سفیر ہوتے ہیں
تصور کو پاکیزگی نصیب ہو تو ازل سے رواں ایک ایسے عظیم کارواں کا تصور کریں جس میں ہر ہر عہد کے نعت گو شعراء اور نعت خوان خواتین و حضرات محوِ سفر ہیں۔ یہ نعت کا عظیم کارواں ہے جس کی رہنمائی حضرت ابو طالب کے ذمہ ہے۔ اِس کارواں کے پہلے مسافر سرکارِ دو عالمۖ کو ”محمدۖ” جیسا نام دینے والے آپۖ کے دادا حضرت عبدالمطلب ہیں اور پھر یہ کارواں حضرت حسان بن ثابت، حضرت کعب بن ذہیر جیسے جیّد صحابہ کرام کی رہنمائیMasjid e nabvi SAWW میں محوِ سفر ہوتا ہے۔ بوصیری، جامی، سعدی، رومی، اقبال، احمد رضا خان اور محسن کاکوروی بھی اسی قافلے کے مسافر رہے ۔ یہ قافلہ ہے جس میں سفر کی سعادت نسبتِ رسول اور اِذنِ سرکار کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ہر عہد میں سرکار کے دیوانے اس قافلے میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ ”آبجوئے نور” کی شاعرہ شمسہ نورین بھی ان خوش نصیب غلامانِ رسولۖ کی فہرست میں شامل ہو چکی ہے جن کو نسبتِ رسولۖ کی دولت سرکارِ دو عالمۖ کے در سے عطا ہوئی اور یہی نسبت، نعت رسولۖ کی صورت میں جہانِ جذبہ و عقیدت کو روشن کر رہی ہے۔
شمسہ اس کاروان کی مسافر ہوئی ہیں جس میں گرد ِراہ ہو جانا ہی منزل پالینا ہوتا ہے۔
اُس نام کی برکت سے لگے پار یہ کشتی
ہاتھوں میں رہے اپنے یہ پتوار ہمیشہ
حُسنِ حقیقی کے ادراک کے لیے انسانی فکر میں بصیرت و بصارت کا ایک مخصوص نظام کام کرتا ہے۔ حمد و نعت سے منسلک ہر شاعر کے ہاں یہ نظام حِسی سطح پر بھی کام کرتا ہے اور ماورائے حسیات بھی۔ گویا نعت گو شاعر حسیات سے ورا ایک اور جہان میں بھی متحرک ہوتا ہے۔ تمام نعت گو شعراء کی طرح شمسہ نورین کی فکر بھی شعور اور لا شعور کے درمیان متحرک رہتی ہے۔ یوں وہ حسیات سے ماورائے حسیات فن کی آبیاری کرتی ہیں۔ اُن کی شعری کائنات ورافتگی ٔ شوق اور فکری گہرائی و گیرائی، ہر دو موجود ہیں اور اُن کی نعتیہ شاعری میں جذبہ کے ساتھ فکر کے موتی بھی جا بجا اپنی چمک دکھاتے نظر آتے ہیں۔
سید صبیح رحمانی لکھتے ہیں:
”فن اور تخلیقی سطح پر شاعر کا شعور اپنی اعلیٰ ترین حالت اور کیفیت کا اظہا رکرتا اور اس لمحے میں اُس کے یہاں کسی اشتباہ کا گزر تک نہیں ہوتا اس لیے صرف سخن میں بندگی کا قرینہ پورے شعور اور اہتمام سے سامنے آتا ہے”۔
(اردو کا حمدیہ ادب (اجمالی مطالعہ)
شمسہ نورین کا تخلیقی جوہر بھی اُں کی اپنی شخصیت سے نکلتا ہے۔ یوں اُن کی نعت کا تخلیقی اسلوب اجتماعی اسلوب کا حصہ ہونے کے باوجود اپنا الگ نظریاتی اسلوب بھی بناتا ہے جو انہیں تقدیسی شاعری میں منفرد کرتا ہے۔ کسی شاعر یا شاعرہ کے لیے یہ بات اہم ہوتی ہے کہ آغاز میں اُس کے اندازِ تحریر میں ایک انفرادیت پیدا ہو جائے۔
خرامِ خامہ سے آئے، صدائے صلِّ علیٰ
یوں سہل مجھ پہ، ثنائے رسولۖ ہو جائے
صدیوں سے جو پُھونکا تھا فسوں تِیرہ شبوں نے
ٹُوٹا ہے یقینا تِری گفتار کی لَو سے
ڈھل گئے روشنی کے سبھی سلسلے
کب سراجِ مُبیں کی ڈھلی روشنی
نبی کی شان ہے ختمِ نبوت
مرا ایمان ہے ختمِ نبوت
وہ زمانہ بھی کیا، زمانہ تھا
آپۖ کا جب جہاں میں، آنا تھا
شمسہ نورین کی نعتیہ شاعری عجز و عقیدت’ عشق اور صداقتِ لفظ و معانی پر اپنی بنیادیں استوار کرتی ہیں۔ اُن کی شاعری ان اوصاف کی بناء رواں اور عام فہم ہونے کے ساتھ دل سے دل تک سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ روایتی نعتیہ موضوعات میں بھی ندرت فکر اور فنی اختصاص پیدا کرتی ہیں یوں اُں کا قاری جذبہ و عقیدت کی یہ خوشبو اپنے چاروں طرف محسوس کرتا ہے اور اُن کے شعری تجربے کا شریک بن جاتا ہے۔
اے ہوا دیکھ یہ ہے درِ مصطفی
پائوں آہستہ دھر، سر جھکا کے گزر
جس نے ابھی تھامی نہیں ہاتھوں میں وہ جالی
اُس نے ابھی بخشش کے وسیلے نہیں دیکھے
روزِ محشر مجھے مل جائے شفاعت تیری
میری مشکل بھی ہو آسان، مدینے والے
کرے جو رہنما سیرت، بشر گرداب سے نکلے
دکھائی دے کوئی منزل، سفر گرداب سے نکلے
شمسہ نورین کی مدحیہ تخلیقات عمومی سطح پر سادہ، پر اثر اور مصنوعی ابہام سے پاک اپنے قارئین سے رابطہ استوار کرتی ہیں تا ہم اُن کے ہاں گاہے بگاہے استعاراتی و تلمیحاتی آہنگ نادر کیفیات کو جنم دیتا ہے۔ اُن کی شعری صلاحیتیں تقدیسی شاعری کے دائرے میں نکھر کر سامنے آئی ہیں۔ اشعار میں تلمیحاتی آہنگ بتاتا ہے کہ انہوں نے قرآن پاک اور سیرتِ رسولۖ کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ اُن کا مطالعہ مختلف تلمیحات کی صورت میں جابہ جا اشعار میں جگمگاتا نظر آتا ہے۔
خدا نے اُنۖ کی ذات میں سبھی کمال رکھ دیئے
رؤف ہیں، رحیم ہیں وہ صاحبِ جمال ہیں
مجھے یقیں ہے وہ محشر میں لاج رکھیں گے
انہی کی رہ پہ رہیں اور قدم بڑھاتے چلیں
آپ کے در کے ذرّے وہ خورشید ہیں
ضو طلب جن سے شمس و قمر یا نبیۖ
کاسۂ دید کو ہے جلوۂ رحمت کی طلب
اور کچھ بھی نہیں ہم اس کے سوا مانگتے ہیں
اے شافعِ محشر، نورِ حرم
ہم تیرہ شبوں کا، رکھنا بھرم
شمسہ نورین کی تقدیسی شاعری کا ایک اختصاص اُن کے ہاں شعر میں روانی اور مصرعوں میں سلاست ہے۔ وہ سہل ممتنع میں نعتیہ اشعار کی تشکیل کچھ اس طرح کرتی ہیں کہ پڑھنے والا سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اتنی آسانی سے بھی نعت کے اشعار کہے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے رواں اور آسان بحور کا انتخاب کیا۔ مشکل اور پیچیدہ قوافی کے بجائے رواں اور آسان قوافی سے کام لیا البتہ کچھ نئی ردیفوں کے ذریعے کلام میں ندرت پیدا کرنے کی سعی کی ہے۔
بے گھر کے لیے جیسے کسی گھر کا تصوّر
ایسے ہے مرے واسطے اُس در کا تصوّر
ہم آپۖ سے رحمت کے طلبگار ہمیشہ
ہو چشمِ کرم آپۖ کی سر کار ہمیشہ
نعت کی ذیل میں جو لفظ آئیں
سمجھو خیرِ کثیر ہوتے ہیں
اُس ماہِ رسالت کا، ہر شخص ہے شیدائی
ہر قلب ہے سودائی، ہر آنکھ تمنائی
شمسہ نورین نے نعت میں پیچیدہ خیالی کے بجائے سادہ اور آسان زبان میں سرکار دو عالمۖ کے حضور حالِ دل کہا ہے۔ انہوں نے کہیں بھی کسی بڑے فکری یا فنی عجوبے کی سعی نہیں کی یوں اُن کا کلام قارئین کے لیے یقینا جذب و کیف کا سامان پیدا کرے گا اور یقینا ادبی و تقدیسی حلقوں میں بھی اسے پذیرائی نصیب ہو گی۔ میں محترمہ شمسہ نورین کو پہلے نعتیہ مجموعہ ٔکلام ”آبجوئے نور” کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اُن کے خوشگوار شعری مستقبل کے لیے دعا گو ہوں۔

ڈاکٹر کاشف عرفان
اسلام آباد
٢٣ جنوری ٢٠٢٥

بشکریہ ویکلی پنڈی پوسٹ

سائٹ منتظم

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button