یہ دن بھی دیکھنا تھا دل میں گھاو کرتے ہوئے
خود اپنے دوست سے اپنا بچاو کرتے ہوئے
کسی سے ترک تعلق ہے آخری سودا
کوئ بھی خوش نہیں ہوتا یہ بھاو کرتے ہوئے
ہنسی مذاق نہیں ہوتا پار اتر جانا
سمندروں کے مخالف بہاو کرتے ہوئے
اب آنسوؤں پہ ٹھہرتا نہیں ہے کوئ بند
کنارے کھا گیا دریا کٹاو کرتے ہوئے
کہ ھم سے اور وہ اب چاہتا ہے کیا روحی
یہاں تک آ تو گئے ھم نبھاو کرتے ہوئے
ریحانہ روحی