ڈھلتے ڈھلتے
ایک رُوپہلے منظر نے کچھ سوچا …پلٹا
پگڈنڈی سنسان پڑی تھی
مٹیالی اور سرد ہوائیں
ہاتھ جھُلاتی شاخیں
رُوکھے سوکھے پتے
تنہا پیڑ پہ بیٹھے بیٹھے
چٹخ رہے تھے
ٹوٹ رہے تھے
خاک اُڑاتی پگڈنڈی پر
شام سمے کا دھندلا بادل
جھکنے لگا تھا
ڈھلتے ڈھلتے
ایک رُوپہلے منظر کی اُن بھید بھری
آنکھوں میں کوئی
جگنو چمکا …تارا ٹوٹا …وہم نہیں ہے
آج اُن کھوئی کھوئی
بوجھل آنکھوں میں
کوئی جگنو چمکا
تارا ٹوٹا
لحظہ بھر کو
وہم نہیں ہے
گلناز کوثر