اگر محبت پہ حرف آئے تو جاں گنواؤ،
روایتوں کے صنم کدوں کا طلسم توڑو،
انا گزیدہ بزرگ نفرت کو یہ بتاؤ
ندی کے اُس پار جو قبیلہ ہے معتبر ہے،
جراحتوں کے چراغ لے کر ہوا میں نکلو،
بنامِ چاہت ، بغاوتوں کے علم اٹھاؤ،
طویل مدّت سے تیرگی میں بھٹکنے والے، کمر خمیدہ قبیلے والوں کو یہ بتاؤ،
ندی کے اس پار جو قبیلہ ہے بے ضرر ہے۔
مگر یہ سچ ہے، انا گزیدہ کمر خمیدہ قبیلے والے،
محبتوں کے علم کے نیچے رعونتوں کو نہ خم کریں گے،
تمہارےسر ہی قلم کریں گے،
جو ہو رہاتھا وہی ہوا ہے،
خداؤں جیسی انا کے مینار ، خم ہوئے تھے نہ خم ہوئے ہیں ۔
سرِ وفا ہی قلم ہوئے ہیں، مگر محبت کہاں مری ہے۔
وہی محبت پھر ایک مانجھی کا گیت بن کر، وفاکے ساحل پہ گونجتی ہے،
ندی کے اس پار جو قبیلہ ہے معتبر ہے، ندی کے اس پار جو قبیلہ ہے بے ضرر ہے
طارق قمر