صبر تو کر حساب رکھتا ہوں
جتنے باقی ہیں خواب رکھتا ہوں
آپ جتنا دماغ رکھتے ہیں
میں تو اُتنا خراب رکھتا ہوں
غم نہ کر حشر کا ترازو لا
لا میں اپنے ثواب رکھتا ہوں
کُھلتے جاتے ہیں پارسا مجھ پر
جب بھی آگے شراب رکھتا ہوں
یاد آتا ہے وہ حسیں چہرہ
قبر پر جب گلاب رکھتا ہوں
آپ آنکھوں کے تیر تو کھینچیں
دل کو حاضر جناب رکھتا ہوں
دشمنوں کی کمی نہیں مجھ کو
دوست میں بے حساب رکھتا ہوں
باقی ردی میں بیچ بھی دوں تو
غم پہ لکھی کتاب رکھتا ہوں
خود سے ملنا ہو جس گھڑی فیصل
پی کے حالت خراب رکھتا ہوں
فیصل شہزاد