اختصاریئےاردو تحاریراردو کالمزڈاکٹر وحید احمد

چائے چاہیے ؟؟

وحید احمد کا ایک اردو کالم

کون سی جناب ؟ لپٹن عمدہ ہے۔۔۔۔ !!! بچپن کے یاداشت ایک دیوار ہے جس پر یہ اشتہار آج بھی چسپاں ہے۔ چائے کی قصیدہ خوانی کرتا یہ دوگانا ریڈیو پر اکثر بجا کرتا تھا۔ لائل پور کے ریلوے اسٹیشن سے جب گاڑی لاہور کی جانب رواں ہوتی اور تیزی سے پٹڑیاں بدلتے ہوئے طارق آباد سے گزرتی تو چائے کی فیکٹری کی لمبی دیوار نظر آتی۔ ساٹھ کی دہائی میں میرے والد یہاں مینیجر تھے۔ پوری دیوار پر جلی حروف میں "لپٹن” لکھا ہوا تھا۔ وہ لفظ اب بھی دل کی دیوار سے لپٹا ہوا ہے۔ یادوں کے گرد اب بھی اس کی لپٹن ہے۔
شاعر اور ادیب چائے خانوں کے دیوانے ہیں۔ لکھاریوں کا چائے خانوں سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگرچہ اب یہ رواج کم ہوتا جا رہا ہے مگر ایک زمانے میں تو شاعر حضرات چائے خانے کے بغیر محفل کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ مجھے ناصر کاظمی کا ایک انٹرویو یاد آ رہا ہے جس میں وہ استعجابیہ انداز میں گلہ کر رہے تھے کہ یہ دوستوں کو کیا ہو گیا ہے۔ یعنی انہوں نے گھروں میں ڈرائینگ روم بنا لئے ہیں اور چائے پلانے کے لئے ٹی سیٹ خرید لئے ہیں ۔۔۔۔۔۔!!!
چائے خانوں کی تاریخ بہت دلچسپ ہے۔ یہ 1830 کی بات ہے۔ یورپ میں شراب نوشی کے خلاف تحریک چلی جسے Temperate movement کہتے ہیں۔ رد عمل کے طور پر لوگوں نے مے خانوں (pubs) کی جگہ چائے خانے کھول دئیے۔ اول اول سکاٹ لینڈ میں چائے خانوں کا آغاز انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں ہوا جبکہ امریکہ میں یہ کام 1880 میں شروع ہوا۔
1940 میں بوٹا سنگھ نے لاہور میں انڈیا ٹی ہاوس کھولا۔ 1948 میں یہ سراج الدین احمد کو الاٹ ہوا اور اس کا نام پاک ٹی ہاوس رکھا گیا۔
"ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا”۔ ممکن ہی نہیں کہ بیان چائے کا ہو اور مولانا ابوالکلام آزاد کی بات نہ ہو۔ مولانا اس میدان میں سند رکھتے ہیں۔ آپ کی مشہور کتاب "غبار خاطر” میں کس سرشاری سے چائے کی مدح بیان کی گئی ہے۔۔۔ سبحان اللہ۔ یہ کتاب دراصل خطوط کا مجموعہ ہے جو مولانا نے 1942 سے 1945 میں دوران اسیری قلعہ احمد نگر سے مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی کو لکھے تھے۔ مولانا کا انداز تحریر بے مثال تھا۔ غبار خاطر کے جستہ جستہ شہ پارے دیکھئے:
"ایک مدت سے جس چائے کا عادی ہوں وہ وہائٹ جیسمن کہلاتی ہے یعنی "یاسمین سفید” یا ٹھیٹ اردو میں یوں کہیے کہ "گوری چنبیلی”۔ اس کی خوشبو جس قدر لطیف ہے، اتنا ہی کیف تند و تیز ہے۔ رنگت کی نسبت کیا کہوں، لوگوں نے آتش سیال کی تعبیر سے کام لیا ہے:
مے میان شیشہ ء ساقی نگر
آتشے گویا بہ آب آلودہ اند
لیکن آگ کا تخیل پھر ارضی ہے اور اس چائے کی علویت کچھ اور چاہتی ہے۔ میں سورج کی کرنوں کو مٹھی میں بند کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یوں سمجھئے جیسے کسی نے سورج کی کرنیں حل کر کے بلوریں فنجان میں گھول دی ہیں۔ مولانا محمد مازندانی صاحب بت خانہ نےtea اگر یہ چائے پی ہوتی تو خانخاناں کی خانہ ساز شراب کی مدح میں ہرگز یہ نہ کہتا:
نہ می ماند ایں بادہ اصلا” بہ آب
تو گوئی کہ حل کردہ اند آفتاب ”
"چائے چینیوں کی پیداوار ہے اور چینیوں کی تصریح کی مطابق پندرہ سو سال سے استعمال کی جا رہی ہے۔ لیکن وہاں کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ اس جوہر لطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جا سکتا ہے۔ سترھویں صدی میں جب انگریز اس سے آشنا ہوئے تو نہیں معلوم کہ ان کو کیا سوجھی، انہوں نے دودھ ملانے کی بدعت ایجاد کی۔اب ہندوستان کے لوگ چائے میں دودھ ڈالنے کی جگہ دودھ میں چائے ڈالنے لگے۔ لوگ چائے کی جگہ ایک طرح کا سیال حلوہ بناتے ہیں، کھانے کی جگہ پیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے چائے پی لی۔ ان نادانوں دے کون کہے کہ:
ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں”
راولپنڈی آرٹ کونسل میں پنجاب ٹی ہاوس کا آغاز بہت خوش آئند ہے۔ یہ اسی دیرینہ روایت کی توسیع ہے جو ادیبوں کو مل بیٹھنے کا بہترین موقعہ فراہم کرتی ہے۔ اس چائے خانے کے قیام پر ممتاز شاعر انجم سلیمی اور ناصر علی ناصر کو بہت بہت مبارک۔ اس ٹی ہاوس میں ایک کنویں کا ماڈل بھی رکھا گیا ہے جسے گوشہ ء مجید امجد کا نام دیا جائے گا۔ اس ماڈل کو دیکھتے ہی مجید امجد کی مشہور نظم "کنواں” یاد آ جاتی ہے:
کنواں چل رہا ہے مگر کھیت سوکھے پڑے ہیں
نہ فصلیں نہ خرمن نہ دانہ
نہ شاخوں کی باہیں نہ پھولوں کے مکھڑے نہ کلیوں کے ماتھے نہ رت کی جوانی
گزرتا ہے کیاروں کے پیاسے کناروں کو جب چیرتا تیز خوں رنگ پانی
کہ جیسے ہو زخموں کی دکھتی تپکتی تہوں میں کسی نیشتر کی روانی
ادھر دھیری دھیری
کنویں کی نفیری
ہے چھیڑے چلی جا رہی اک ترانہ
پراسرار گانا
اس تمام پس منظر کا احاطہ بھائی جاوید احمد کا ایک دلآویز شعر کرتا ہے:
چند شاعر ہیں جو اس شہر میں مل بیٹھتے ہیں
ورنہ لوگوں میں وہ نفرت ہے کہ دل بیٹھتے ہیں

وحید احمد
21 جولائی 2022

کرن شہزادی

سلام اردو ایڈیٹر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button