رہِ الفت کی ہر منزل ترے دم سے ہی سر ہو گی
نہ ہو گا تُو اگر تو یاد تیری ہم سفر ہو گی
رہے جس کے لیے بے تاب و مُضطر ہر گھڑی، اُس کو
گزر جائیں گے جب ہم جان سے، کیا پھر خبر ہو گی؟
کہیں سے خواہشوں کی بیل اُگ آئی تھی آنگن میں
مجھے معلوم کیا تھا میری ہر رُت بے ثمر ہو گی؟
وہی دن ہیں وہی راتیں، وہی نشتر بھری باتیں
خدارا یہ بتاؤ کب تلک ایسے بسر ہو گی؟
ہر اک پل جو نظر رکھتا ہے میرے حال پر ناہید
کبھی کیا اُس کی میرے حوصلے پر بھی نظر ہو گی؟
ناہید ورک