آپ کا سلاماردو نظمسلمیٰ سیّدشعر و شاعری

ایک دیرینہ دوست کےلئے نظم

سلمیٰ سیّد کی ایک اردو نظم

ایک دیرینہ دوست کےلئے نظم

رفیق میرے
تمھاری آنکھوں میں زرد موسم ٹھہر گیا ہے
وہ زندگی سے جڑی تمنا
وہ ساحلوں سی سبک روانی
تمام جذبوں میں گندھ کے نکھری
سنہری مٹی سی مست جوانی
گھنے اندھیروں میں روشنی کی
قلم لگانے کا خواب کیونکر بکھر گیا ہے
تم آنے والے کل میں چلے گئے ہو
یا اپنے ماضی میں جا بسے ہو ؟
مگر یہ سن لو
کہ زندگی کو گزار دینا ہی فن نہیں ہے
تمھیں یہ جینا ہی پڑ گئی ہے
تو اپنے حصے کی سانس تو لو
یہ کب کہا ہے کہ گزری باتیں بھلا کے جی لو
مگر یہ دیکھو کہ زرد موسم
حدوں سے اپنی نکل رہا ہے
تمھاری آنکھوں تمھارے خوابوں
تمھارے چہرے کو پٹ رہا ہے
یہ دشت آنکھیں یہ پیاس آہیں
لہو کو کیسے جلا رہیں ہیں
تمھیں بتاؤں میں راز ایسا ؟؟
اگر جو اس پر عمل کروگے
تو خواب پھر سے سجا سکو گے
کبھی جو فرصت تمھیں ملے تو
تمام دنیا کو تج کے آنا
میں تیری آنکھوں کی پتلییوں سے
تمام صحرا نکال دوں گی
میں بادلوں کے کئی قبیلے
تمھاری روح کو ادھار دوں گی
پھرکھل کے رونا کہ دشت دریا چناب ہوگا
وہ صد صدیوں کا تشنہ راہی
حقیقتوں میں سمو کے خود کو سیراب ہوگا
وہیں اسی پل ختم اداسی کا باب ہوگا

سلمیٰ سیّد

سلمیٰ سیّد

قلمی نام سلمیٰ سید شاعری کا آغاز۔۔ شاعری کا آغاز تو پیدائش کے بعد ہی سے ہوگیا تھا اسوقت کے بزرگوں کی روایت کیمطابق گریہ بھی خاص لے اور ردھم میں تھا۔۔ طالب علمی کے زمانے میں اساتذہ سے معذرت کے ساتھ غالب اور میر کی بڑی غزلیں برباد کرنے کے بعد تائب ہو کر خود لکھنا شروع کیا۔ناقابل اشاعت ہونے کے باعث مشق ستم آج تلک جاری ہے۔اردو مادری زبان ہے مگر بہت سلیس اردو میں لکھنے کی عادی ہوں۔ میری لکھی نظمیں بس کچھ کچے پکے سے خیال ہیں میرے جنھیں آج آپ کے ساتھ بانٹنے کا ایک قریبی دوست نے مشورہ دیا۔۔ تعلیمی قابلیت بی کام سے بڑھ نہ سکی افسوس ہے مگر خیر۔۔مشرقی گھریلو خاتون ایسی ہی ہوں تو گھر والوں کے لیے تسلی کا باعث ہوتی ہیں۔۔ پسندیدہ شعراء کی طویل فہرست ہے مگر شاعری کی ابتدا سے فرحت عباس شاہ کے متاثرین میں سے ہوں۔۔ شائد یہی وجہ ہے میری نظمیں بھی آزاد ہیں۔۔ خوبصورت شہر کراچی سے میرا تعلق اور محبت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button