ایک دیرینہ دوست کےلئے نظم
رفیق میرے
تمھاری آنکھوں میں زرد موسم ٹھہر گیا ہے
وہ زندگی سے جڑی تمنا
وہ ساحلوں سی سبک روانی
تمام جذبوں میں گندھ کے نکھری
سنہری مٹی سی مست جوانی
گھنے اندھیروں میں روشنی کی
قلم لگانے کا خواب کیونکر بکھر گیا ہے
تم آنے والے کل میں چلے گئے ہو
یا اپنے ماضی میں جا بسے ہو ؟
مگر یہ سن لو
کہ زندگی کو گزار دینا ہی فن نہیں ہے
تمھیں یہ جینا ہی پڑ گئی ہے
تو اپنے حصے کی سانس تو لو
یہ کب کہا ہے کہ گزری باتیں بھلا کے جی لو
مگر یہ دیکھو کہ زرد موسم
حدوں سے اپنی نکل رہا ہے
تمھاری آنکھوں تمھارے خوابوں
تمھارے چہرے کو پٹ رہا ہے
یہ دشت آنکھیں یہ پیاس آہیں
لہو کو کیسے جلا رہیں ہیں
تمھیں بتاؤں میں راز ایسا ؟؟
اگر جو اس پر عمل کروگے
تو خواب پھر سے سجا سکو گے
کبھی جو فرصت تمھیں ملے تو
تمام دنیا کو تج کے آنا
میں تیری آنکھوں کی پتلییوں سے
تمام صحرا نکال دوں گی
میں بادلوں کے کئی قبیلے
تمھاری روح کو ادھار دوں گی
پھرکھل کے رونا کہ دشت دریا چناب ہوگا
وہ صد صدیوں کا تشنہ راہی
حقیقتوں میں سمو کے خود کو سیراب ہوگا
وہیں اسی پل ختم اداسی کا باب ہوگا
سلمیٰ سیّد