خود کو اتنا بھی طلب گار نہیں کرنا تھا
بات کرنی تھی مگر پیار نہیں کرنا تھا
دیکھ غصے نے تجھے آج فنا کر ڈالا
بس یہی کام تجھے یار نہیں کرنا تھا
وہ تو تو خود ہی مرے سامنے آیا ورنہ
یار مجھ کو ترا دیدار نہیں کرنا تھا
اس میں آ جاتے ہیں اب دیکھ لے ایرے غیرے
اپنے دل کو تجھے بازار نہیں کرنا تھا
اس نے پوچھا تھا تمہیں مجھ سے محبت ہے نا
ایسے موقع پہ تو انکار نہیں کرنا تھا
اس قدر مرنے سے ڈرنا بھی نہیں تھا ہم کو
اس قدر جینا بھی دشوار نہیں کرنا تھا
علمہ ہاشمی