نہ فکر انبساط کی ، نہ ہی گِلہ فگار کا
ہمارے شوق لے گیا غبار اس دیار کا
یہ زیست ہم سے کٹتے کٹ نہیں رہی ہے دوست اب
ہمیں تو بس دکھا دے کوئی راستہ فرار کا
ہم اب سے اِس کے حلقۂ خراب میں نہیں شریک
نہ ہم سے کوئی ربط ہے دلِ بے اختیار کا
وہ دیر سے ملا جو پھر طلب ہی مر گئی تو کیا؟
جو جلدی ہاتھ آگیا تو لطف کیا شکار کا
نہ عشق جیسا لال ہے نہ ہجر سا سیاہ تر
عجب سا کوئی رنگ ہے تمہارے انتظار کا
ہم اِس کو چھوڑ دیں مگر یہ ہم کو چھوڑتی نہیں
ہے شاعری بھی خوں کسی بہت وفا شعار کا
ایمان ندیم ملک