- Advertisement -

سفر نامہ بھارت – تیسری قسط

ایک سفرنامہ از حسن عباسی

سفر نامہ بھارت

دنیا کا تیسرا بڑا شہر دہلی جدید ہندوستان کا بھی دارلحکومت ہے۔ یہ شہر در حقیقت دو شہروں کا مجموعہ ہے۔ پُرانی دہلی جو سترہویں صدی سے مسلمان حکمرانوں کا پایہ تخت ہے۔ شہر کا یہ حصہ آج بھی اس کی بہت سی یادگاروں کا نگہبان ہے۔ اس شہر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس دوران کچھ عرصہ آگرہ مغلوں کا اوربعدازاں کلکتہ انگریزوں کا درالحکومت رہا لیکن اس شہر کی اہمیت بہرحال برقرار رہی۔ شہر کا دوسرا حصہ نئی دہلی کہلاتا ہے جو انگریزوں کا بسایا ہوا ہے۔ شہر کے قابل دید مقامات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چاندنی چوک، لال قلعہ، مزارِ حضرت نظام الدین اولیائ، مزارِ امیر خسرو، مزارِ مرزا غالب، دیوانِ عام، دیوانِ خاص، شاہی حمام، موتی مسجد، رنگ محل، جامع مسجد، فیروز شاہ کوٹلہ اور راج گھاٹ ان میں سے چند ہیں۔ نئی دہلی کے اہم مقامات میں کناٹ پیلس، جنتر منتر، لکشمی نارائن مندر، راج پاٹھ، گیٹ آف انڈیا، راشٹرپتی بھون اور سنسد بھون وغیرہ شامل ہیں۔ شہر کے بہت سے عجائب گھر بھی قابلِ دید ہیں۔

اردو بولنے والوں کے لےے دلّی کی اہمیت علمی وادبی بھی ہے۔ دلی کی اہمیت کے لےے تو شاید ایک بات ہی کافی تھی کہ غالب کا شہر ہے۔ اُردو شعر و ادب نے اپنی بہت سی ارتقائی منازل اسی شہر میں طے کیں۔

اس شہر سے گزرنا گویا مسلمانانِ برصغیر کی تاریخ میں سفر کرنا ہے۔

——٭٭٭——

مومن خسرے کی زیارت

ہم بچپن سے ہی سنتے آرہے تھے۔

ہنوز دلی دور است

ہنوز دلی دور است

مگر ہماری ”نیند“ نے اس فارسی محاورے کی حقیقت بھی فاش کر دی امرتسر سے روانہ ہوئے تو ابھی ہماری آنکھ پوری طرح لگنے بھی نہ پائی تھی کہ ہم دلی پہنچ گئے۔

دلی تو دل سے بھی زیادہ نزدیک نکلی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمیں ہندو بلوائیوں کے خوف سے رات بھر نیند نہ آتی اور ہم سارا راستہ کلمہ پڑھتے دلّی پہنچتے مگر صرف دلی ہی نہیں دلی کی طرف جانے والا راستہ بھی سپنوں بھرا تھا۔

یہ سفر تو بالکل ننندیاپور کے سفر جیسا تھا۔

ہم دلی کے لےے نا محرم تھے اس لےے اس نے ہمیں دیکھتے ہی اپنا آپ دھند میں چھپا لیا۔ ہم نے بھی لاکھ جتن کیے اس باپردہ شرمیلی دو شیزہ کا کوئی حصہ ہمیں کسی طرح نظر آئے تاکہ ہماری صبح خوشگوار ہو سکے اور منزل پہ پہنچنے کا احساس ہو مگر کامیابی نصیب نہ ہوئی۔

بڑی کمال کی دھند تھی۔

پتہ بھی نہ چلا اور لاجپت بھون پہنچ گئے۔

دھند ایسی کہ سامنے والا

جیسے دیوار سے نکل آیا

یہاں رجسٹر میں نام درج ہوئے اور کمروں کے دروازے کھل گئے ہر کوارٹر کے آگے ایک خوبصورت لان تھا۔ اسکول کی بہت بڑی عمارت، ڈسپنسری اور گراﺅنڈ کے باوجود لاجپت بھون کا ماحول گھر جیسا تھا۔ ہم بڑے مزے سے رہنے لگے۔

ہمارے لےے دو ہندو خدمتگار مقرر تھے ایک کھانا پکانے اوردوسرا باہر سے سودا لانے کے لےے دونوں ہی بہت ہنس مکھ فرمانبردار اور نیک نیت تھے۔ ایک کانام تورا موتھا دوسرے کا اب یاد نہیں آرہا۔ ستیہ جی بھی ایک کمرے میں رہائش پذیر تھے۔ ہم پہلی بار اُن سے ملنے گئے تو ہماری ذہن میں یہ تھا کہ ان کی رہائش کا کمرہ بہت اعلیٰ، جدید ترین سہولیات سے آراستہ اور مرعوب کرنے والا ہو گا۔

کمرے کا دروازہ اُنھوں نے کھولا تو خندہ پیشانی سے ملے جیسا کہ اُن کی عادت تھی اور اندر آنے کو کہا، ہمیں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ ضروریات زندگی کے علاوہ کوئی سامان فالتو نہ تھا وہی عام بستر جیساکہ سب مہمانوں کے کمروں میں میسر تھا وہی سہولیات جو مہمانوں کے لےے تھیں البتہ کتابیں کافی زیادہ تھیں ہمیں جون ایلیا کا شعر یاد آگیا

میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے اُسے

میرے کمرے میںکتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

ان ڈھیروں کتابوں میں ہمیں اپنا مجموعہ کلام ”ہم نے بھی محبت کی ہے“ بھی نظر آیا جو ہم نے ڈھوڈیکے میں ان کو پیش کیا تھا۔ ہمارا خیال تھا وہاں اتنی مصروفیت اور پھر انتظامی ذمہ داریوں کے سبب وہ ہماری کتاب ڈھوڈیکے ہی چھوڑ آئیں گے اور کسی لڑکی کے ہاتھ لگ جائے گی یعنی صحیح ہاتھوں میں پہنچ جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا اور ستیہ جی اُسے باقی کتابوں کی طرح ساتھ لےکر آئے شاید اُنھیں کتابیں اُٹھانا ہی یاد رہا جب ہمیں پتہ چلا کہ ستیہ جی تو اُردو بھی پڑھ لیتے ہیں تو ہمیں ویسی ہی مایوسی ہوئی جیسی اُن کو ہمارا مجموعہ کلام پڑھ کر ہوئی ہوگی کیونکہ وہ تو ٹھہرے انقلابی لیڈر اور ہم بقول سید امتیاز احمد:

”محبت کی نہیں بلکہ محبت میں شاعری کرنے والے شاعر“ پھر ہمیںیہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ محبت سے بڑا انقلاب کوئی اور کیا ہو گا۔

دلّی پہنچ کر ہم آگرہ جانے کےلےے بیتاب تھے مگر ابھی کچھ مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی تھے ایک تو آگرہ کا ویزہ ہمارے پاس نہیں تھا دوسرا ہمارے ساتھ جانے کے لےے کوئی تیار بھی نہیں تھا۔

ایل کے ایڈوانی کاڈنر، امرتا پریتم سے ملاقات اور مشرف عالم ذوقی کے ہاں مشاعرہ باقی لوگوں کو آگرہ جانے سے روک رہا تھا تاج محل کے لےے ان کے دل میں وہ تڑپ نہیں تھی جو ہمارے دل میں تھی ان کی آنکھوں میں اس بے قراری کا شائبہ تک نہیں تھا جو ہماری آنکھوں میں دہک رہی تھی ہم نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا اگر ہمیں بغیر ویزہ کے بھی جانا پڑا تو ضرور جائیں گے چاہے اس کے کچھ بھی نتائج نکلیں۔ ہم سے نثار اے سنی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ دلی سے ہمیں آگرہ جانے کی اجازت لے دے گا کیونکہ وہ پہلے کئی بار آچکا تھا اور ”اُستاد“ آدمی تھا۔ جب ہم نے اس کو وعدہ یاد دلایا تو اس نے فوراً ایک اور وعدہ کر لیا اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں مشورہ دیا کہ اس عمل میں دو دن لگیں گے بادشاہ سلامت آپ اس دوران دلی فتح کر لیں بعد میں آگرہ کر لیجئے گا اس کا مشورہ ہمیں پسند آیا اس لےے ہم نے اس کی جان بخشی کا حکم صادر فرمایا۔

ہم میر صاحب کی باتوں میں آکر دلی تو پہنچ گئے مگر یہاں آکر پتہ چلا کہ نہ تو دلّی کے گلی کوچے اوراق مصور ہیں اور نہ ہی ہر شکل تصویر جیسی اس لےے ہم جتنے دن دلی میںرہے لَا حَولَ ولاَ قوة پڑھے بغیر بھی شیطان کو بھگانے میں کامیاب رہے بظاہر دلی کی طرح دل کے اُجڑنے کا خطرہ نہ ہونے کے برابر تھا لہٰذا ہاتھ دل پر رکھنے کی نوبت کم کم آئی البتہ علی ارمان کا یہ شعر بار بار یاد آیا۔

دلی میں اور دل میں بڑا فرق ہے میاں

اک بار اُجڑ گیا تو بسایا نہ جائے گا

ہم چونکہ پبلشر تھے اس لےے دلّی میں ہم نے سب سے پہلے اُردو بازار کا رخ کیا تاکہ اپنی آمد کی اطلاع یہاں کے پبلشرز کو دے سکیں اور وہ ہماری آمد کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے بھر پور فائدہ اُٹھا سکیں اور ہمارے مشوروں سے مستفید بھی ہوں۔ ہماری اونٹنی جس مکتبہ پر رکی وہ اسلامی کتابوں کا مرکز دکھائی دیتا تھا۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ اس لےے رحمت برس رہی تھی کاروباری لوگ گاہک کو رحمت خداوندی سمجھتے ہیں اس مکتبہ کے پبلشر اور سیلزمین حضرات ماشاءاللہ سب کے سب باریش تھے ہم نے جس شخصیت کو اپنے تعارف کے لےے منتخب کیا اُن کا چہرہ پرنور تھا۔

سلام کرنے کے بعد ہم نے اپنا تعارف بطور پبلشر بھرپور طریقے سے کرایا اور ساتھ ساتھ فخریہ انداز میںیہ بھی باور کرا دیا کہ ہم لاہور سے آئے ہیں اور آپ کے مہمان ہیں۔ ابھی ہم نے بات مکمل بھی نہیں کی تھی کہ وہ مولوی صاحب ایک خسرے کی طرف متوجہ ہو گئے اور اس گستاخی پر ہم سے معذرت بھی نہیں کی لہٰذا ہم بھی شرمندگی مٹانے کے لےے خسرے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ پہلے ہمارا خیال تھا یہ خسرہ بھی پاکستانی خُسروں کی طرح ہوگا۔ پہلے کچھ دیر ناز و انداز دکھائے گا پھر ایک ٹھمکا لگا کر دعا دے گا، دو تین سیکسی باتیں کرے گا اور دس کا نوٹ لے کر چلتا بنے گا مگر یہاں تو گنگا الٹی بہہ رہی تھی اس خُسرے نے اپنے پرس سے بہت سے نوٹ نکالے اور مولوی صاحب کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے قرآن پاک مسجدوں میں رکھوا دینا اور گاڑی میں بیٹھ کر مکمل شان و شوکت سے روانہ ہو گیا۔ دلی کے خسروں کے متعلق سنا تو بہت تھا مگر دیکھا پہلی بار اور ساتھ ہی ساتھ خدا کا شکر بھی ادا کیا کہ ہمیں ”مومن خُسرے“ کی زیارت نصیب ہوئی تھی۔
ہم جب بھی اپنے تعارف کو مکمل کرنے کی کوشش کرتے کوئی نہ کوئی مومن خُسرہ جلوہ افروز ہو جاتا اور ہمارے مخاطب مولوی صاحب ہمیں نظر انداز کر کے خُسرے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہم بھی اس کارِ خیر میں رُکاوٹ بننا نہیں چاہتے تھے اس لےے صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا بالآخر ہم اپنا تعارف کرانے میں کامیاب تو ہو گئے مگر یہ ہمارے لےے کوئی نیک شگون ثابت نہ ہوا۔

مولوی صاحب فرمانے لگے۔

”ہمارے لےے کیا لائے“؟

ان کے اس ذومعنی جملے اور خُسروں کی مسلسل آمد نے ہمیں ڈرا دیا۔ یہ تو شکر ہے اُنھوں نے خود وضاحت کر دی ”پاکستان سے کتابیں لائے کہ نہیں؟“ ان کا انداز اب غصے والا تھا۔

ہم نے نفی میں سر ہلایا تو وہ ایک اور خُسرے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اب ہماری مردانگی پر حرف آرہا تھا اس لےے ہم نے وہاں ایک منٹ بھی رکنا گوارا نہیں کیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ جب بھی انڈیا آئیں گے کسی بک سیلر اور پبلشر جیسی مخلوق کو شرف ملاقات نہیں بخشیں گے مگر اگلے ہی لمحے اس خیال کے آتے ہی کہ ہمیں کچھ کتابیں از حد ضروری خرید کرنی ہیں یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ پانچوںانگلیاں برابر نہیں ہوتیں ہر شعبہ میں اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک اور پبلشر کے پاس موجود تھے وہاں خُسروں کی عدم موجودگی کے باوجود ہم سے بادشاہوں جیسا سلوک ہوا جیسا کہ بادشاہ، بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں لہٰذا ہم نے بھی انتقاماً ان سے کوئی کتاب نہ خریدی جو کتابیں درکار تھیں کسی اور وسیلے سے منگوا لیں۔ اس کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔

حسن عباسی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک سفرنامہ از حسن عباسی