ہر بات سے باخبر رہی ہے
جب تک کہ نظر نظر رہی ہے
مت دیکھ کہ ہے کہاں زمانہ
یہ سوچ کہ کیا گزر رہی ہے
یا بات میں بھی اثر نہیں تھا
یا کام نظر بھی کر رہی ہے
دیکھو تو ہے زخم زخم سینہ
کہنے کو کلی نکھر رہی ہے
حالات کا انتظار باقیؔ
وہ زلف ابھی سنور رہی ہے
باقی صدیقی