اردو غزلیاتاسماعیلؔ میرٹھیشعر و شاعری

ساقی خم خانہ تھا جو صبح و شام

اسماعیلؔ میرٹھی کی ایک اردو غزل

ساقی خم خانہ تھا جو صبح و شام

روز آدینہ تھا مسجد میں امام

جس نے چشم مست ساقی دیکھ لی

تا قیامت اس پہ ہشیاری حرام

اس لب جاں بخش کی باتیں تھیں یا

معجزات عیسی گردوں مقام

ہو گیا اس کو قیامت کا یقیں

جس نے دیکھا سرو قامت کا خرام

چشمۂ آب بقا کی لہر تھی

وہ عبارت وہ اشارت لا کلام

مرحبا عطر گریباں کی شمیم

ہے معطر جس سے روحانی مشام

تھی زباں یا قاطع اوہام یا

ذوالفقار حیدری تھی بے نیام

جس نے دیکھا نرگس شہلا کا خواب

اس نے پایا رمز قلبی لا ینام

قال اتممت علیکم نعمتی

ہو گئیں سب خوبیاں اس پر تمام

جس نے چاٹی عتبۂ علیا کی خاک

تلخیٔ دوراں سے ہو کیوں تلخ کام

اے صبا صحرائے جاں میں کر تلاش

کس طرف ہیں وہ سُرادق وہ خیام

خلوت لیلیٰ میں تو گزرے اگر

تو یہ کہہ دینا ہمارا بھی پیام

تشنگان‌ شوق ہیں گم کردہ راہ

تو بھی چل بہر خدا دو چار گام

بحر میں برپا ہوا جوش و خروش

حبذا رشحات کاسات الکرام

سونپ دی تھی دست قدرت نے تجھے

ناقۂ لیلائے‌ معنی کی زمام

اسماعیلؔ میرٹھی

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button