نشانِ سجدہ پہ اتنا گمان اچھّا نہیں
بہ روزِ حشر خدادل پڑھے گا چہرہ نہیں
بہت سے لوگ مرے ساتھ چل رہے ہیں مگر
یہ ایسی بھیڑ ہے جس میں کوئی کسی کا نہیں
میں اپنی تیرہ نصیبی سے ہار مان گیا
تمام عمر جلا اور جگمگایا نہیں
مہاجروں کے مقدر میں بس اندھیرے ہیں
کہیں چراغ نہیں تو کہیں اجالا نہیں
بھنور اٹھے تھے مرے ناخدا کی آنکھوں سے
میں جانتا ہوں کہ دریا تو اتنا گہرا نہیں
تو کیا گلہ کریں سورج مزاج لوگوں سے
جب اپنے ساتھ ہمارا ہی اپنا سایہ نہیں
اک آئینے کے چٹخنے سے یہ ہوا طارق
پھر اس کے بعد کوئی گھر میں مسکرایا نہیں
ڈاکٹر طارق قمر