آپ کا سلاماردو تحاریرتحقیق و تنقیدمقالات و مضامین

علامہ اقبال اور ملت اسلامیہ کی فلاح

علامہ اقبال پر فضہ پروین کا ایک مضمون

اردو شاعری کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں موضوعاتی تنوع پر بالعموم توجہ نہیں دی گئی۔ حسن یار اور زلف و رخسارکی باتیں پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری کا سب سے بڑا امتیاز یہ رہا ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں ملت اور قومیت کے بارے میں ایک منفرد انداز بیان اپنایا۔ اس طرح ان کی شاعری میں ملت اور معاشرے کے بارے میں
ایک ایسا فلاحی تصور سامنے آیا جس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ قومی دردمندی، خلوص اور انسانی ہمدردی سے لبریز اس شاعری نے قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے اور لہو کی شکل اختیار کر کے سنگلاخ چٹانوں کو بھی موم کر کے اپنی جدت، تنوع اور تاثیر کا لوہا منوایا ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ افراد ہی ہیں جو دنیا بھر کی اقوام کے مقدر کو بدلنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ افراد کا یقین اور جذب باہم اقوام کی تعمیر کے لیے نا گزیر ہے۔ اسی لیے انھوں نے ہر فرد کی قومی تعمیر و ترقی کے سلسلے میں اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ قوم کا ہر فرد قومی افق پر مثل آفتاب ضو فشاں ہوتا ہے۔ ان کاخیال ہے کہ تہذیب و تمدن کے ارتقا میں افراد کی مساعی کا عدم اعتراف ایک غلطی کے مترادف ہے۔ در اصل ہر فرد ملت کے مقدر کے ستارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں تک فرد واحد کا تعلق ہے تو اس کو بھی ملت میں رہتے ہوئے اپنی تمام صلاحیتیں جہد للبقا کےAllama iqbal تقاضوں کی تفہیم میں صرف کرنی چا ہئیں۔ اس عالم آب و گل میں زندگی کے جملہ انداز حسن اور فطرتی رعنائیوں کے طلسم کے اسیر ہیں۔ قومی اور معاشرتی زندگی میں حسن کے نکھار کے لیے یہ ضروری ہے انسانی ہمدردی، بے لوث محبت، خلوص اور دردمندی کو شعار بنایا جائے۔ اس طرح زندگی کو اندیشۂ سود و زیاں سے برتر بنایا جا سکتا ہے۔ ملی فلاح در اصل قومی زندگی کے حسن و دلکشی میں اضافے سے عبارت ہے۔ قومی زندگی کے حسن میں نکھار اور اس کی رعنائی اور دلکشی میں اضافے کے متعدد تقاضے ہیں۔ علامہ اقبال نے ان تمام تقاضوں کی تکمیل و تسکین کی جانب بھر پور توجہ دی۔ وہ اس مقصد کو حسن خیال اور یقین کا ثمر سمجھتے تھے۔ ملت اسلامیہ کی فلاح کا جو خواب انھوں نے دیکھا تھا وہ تاریخ کے اور اق میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ یہی فکر تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو نمو بخشتی ہے اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے جد و جہد کا آغاز یہیں سے ہو تا ہے۔ اس کی بدولت نہاں خانہ ء دل میں عطر بیز اور سکون بخش ہو ا کے جھونکے آتے ہیں اور اسی کے اثر سے لق و دق صحراؤں اور ویرانوں میں لالہ و گل کے نکھار کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور پورے معاشرے اور سماج میں سکون قلب، راحت اور آسودگی کی فراوانی دنیا کو جنت کا نمونہ بنا دیتی ہے۔
علامہ اقبال نے اس وقت ملت اسلامیہ کی فلاح کے لیے جد و جہد کا آغاز کیا جب پورے بر عظیم پر برطانوی استعمار کا غاصبانہ قبضہ یہاں رتیں بے ثمر کر چکا تھا۔ ملت کے ساتھ قلبی وابستگی اور دلی محبت کو علامہ اقبال کی ایک ایسی روحانی تحریک کا ثمر سمجھا جا سکتا ہے جس نے انھیں اسلام کی آفاقی اور ابد آشنا تعلیمات کے تناظر میں قومی بیداری پر مائل کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ زندگی کے تلخ حقائق اور تاریخی صداقتوں کو صراحت کے ساتھ بیان کیا جائے تا کہ قومی زندگی میں ایک واضح تبدیلی کا آغاز ہو سکے۔ فرد اور قوم کے باہم اشتراک عمل کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :

فرد مے گیرد زملت احترام
ملت از افراد می یا بد نظام
فرد تا اندر جماعت گم شود
قطرہ وسعت طلب قلزم شود
مایہ دار سیرت دیرینہ او
رفت و آیندہ را آئینہ او
وصل استقبال و ما ضی ذات او
چوں ابد لا انتہا اوقات او
درد لش ذوق نمو از ملت است
احتساب کار او از ملت است
پیکرش از قوم وہم جا نش ز قوم
ظاہر ش از قوم و پنہانش ز قوم
وحدت او مستقیم از کثرت است
کثرت اندر وحدت او وحدت است(1)

ملت کا وجود افراد کے باہم ملنے جلنے کی ایک قابل فہم صورت سامنے لا تا ہے۔ ملت کے دوام اور استحکام کا راز اس حقیقت میں مضمر ہے کہ افراد کا آپس میں ربط و ضبط کس قدر معتبر ہے۔ جہاں تک ملت اسلامیہ کا تعلق ہے اس کی تکمیل، تہذیب اور تر بیت کا انحصار اسوہ رسولﷺ پر عمل پیرا ہو نے سے ہے۔ ملت اسلامیہ کی تشکیل میں جن ارکان کو اساسی اہمیت حاصل ہے۔ علامہ اقبال نے ان کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔ یہی وہ قابل قدر امور ہیں اور انہی کو ایسے درخشاں حروف سمجھا جا سکتا ہے جو ایک مہذب انسانی معاشرے میں تمام نسبتوں کی تحریک و ترویج اور وقار کے مظہر ہیں :
۱۔ توحید ۲۔ رسالت ۳۔ قرآن حکیم ۴۔ مشاہیر اسلام کی حیات
علامہ اقبال نے ڈر اور مایوسی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کا خیال ہے کہ انسان کو حو صلے اور امید کا دامن تھام کر منزلوں کی جستجو میں منہمک رہنا چاہیے۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں، تضادات اور اضمحلال کا ایک سبب یہ ہے کہ افراد معاشرہ میں بے یقینی کی لرزہ خیز، اعصاب شکن کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ ا س جان لیوا کیفیت کے پس پردہ متعدد عوامل کار فرما ہیں، ان میں مسلسل شکست دل کے باعث پیدا ہونے والی مایوسی، بے حسی، بے عملی اور کاہلی نمایاں ہے۔ بادی النظر میں یہی وہ ہیجانات ہیں جو زندگی کی اقدار عالیہ کے فروغ کی راہ میں حائل ہیں۔ بے یقینی اور تشکیک کا عنصر توحید پر ایمان اور ایقان کی راہ میں سدسکندری بن جا تا ہے۔ علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کو حوصلے اور امید کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھنے کی تلقین کی ہے۔ مسلمانوں کو اللہ کریم کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ آلام روزگار کے مہیب ماحول میں بھی سعیِ پیہم کو شعار بنانے والے منزلوں کی جستجو میں کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ دنیا کی ہر تہذیب اور ہر معاشرے میں زندگی کی اقدار عالیہ کے فروغ میں مذہب کی آفاقی اقدار کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ معاشرتی زندگی کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ معاشرتی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کو محض حادثاتی تصور کرنا خام خیالی ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز کا تعلق افراد کی کارکردگی اور جذب باہمی سے ہے۔ انسان کی جبلت ہے کہ وہ جذب باہمی کو شعار بنا کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ علامہ اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ فرد صرف ربط ملت سے قائم ہے اور تنہا ا س کی کوئی اہمیت نہیں۔ جس طرح دریا کی تند و تیز موجوں اور مہیب تھپیڑوں کی دریا کے باہر کوئی حیثیت نہیں اسی طرح فرد بھی ملت کے ساتھ اگر رابطہ استوار رکھتا ہے تو یہ اس کی کامیابی اور کامرانی کی دلیل ہے۔ حالات کی سنگینی کے باوجود افراد کو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے۔ ملت کی اجتماعی فلاح اور بہبود کے لیے ضروری ہے کہ افراد یاس و ہراس کے ماحول سے نجات حاصل کر کے انسانی آزادی، فلاح اور احساس آزادی کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔ ملت کی فلاح، آزادی اور خوش حالی کے موضوع پر علامہ اقبال کے افکار ان کے شعورو ذہن کی ارتقائی کیفیات کے مظہر ہیں۔ ملی فلاح کو وہ ایک کائناتی عمل کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ اپنے فہم و ادراک کی غیر معمولی قوت سے وہ تاریخی صداقتوں کو اپنے اشعار کے قالب میں ڈھال کر قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہیں۔ وہ ملت کی اجتماعی فلاح و بہبود کے تصور کو انفرادی عمل کے بجائے جہد للبقا کا تقاضا اور ایک ایسا آفاقی عمل قرار دیتے ہیں جس کے اعجاز سے حالات کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے لہجے اور اسلوب کی جدت، ندرت اور تنوع سے ملت اسلامیہ کے متعلق ایک جہان تازہ کی نوید سنائی ہے۔ ملت اسلامیہ کی فلاح کا تصور ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت میں صدیوں کے ارتقائی سفر کے بعد اس عہد تک پہنچا ہے۔ وہ اس درخشاں روایت کو دل و جاں سے عزیز رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مذہب کی ابد آشنا اقدار و روایات ہر شعبہ ء زندگی کے لیے ایک ٹھوس لائحہ ء عمل پیش کرتی ہیں۔ خیالات کی تونگری انہی کی مرہون منت ہے۔ نخل اسلام کی تمام تر قوت اور وسعت اسی وجہ سے ہے کہ یہ زندگی کی درخشاں روایات اور اقدار عالیہ کی مضبوط جڑوں کے سہارے ہمارے سر پر سایہ فگن ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک ایسا ارضی و ثقافتی حوالہ ہے جس کے معجز نما اثر سے ہر دور میں دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں تخیل کی جولانیوں اور شعوری اور لا شعوری محرکات کے مابین ایک واضح اشتراک عمل دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے میں ان کی یادداشت ہر موقع پر حرف صداقت کے امتیاز میں خضر راہ ثابت ہوتی ہے۔ ۔ زندان غم کے اسیر انسانوں کو علامہ اقبال نے پیام نو بہار دیتے ہوئے بر ملا کہا ہے :

اے کہ در زندان غم باشی اسیر
از نبی تعلیم لا تحزن بگیر
ایں سبق صدیقؓ را صدیق کرد
سر خوش از پیمانۂ تحقیق کرد
از رضا مسلم مثال کو کب است
دررہ ہستی تبسم بر لب است
گر خداداری زغم آزاد شو
از خیال بیش و کم آزاد شو( 2)

معاشرتی زندگی میں امن و عافیت اور سکون کی فراہمی ایک فلاحی مملکت کی ذمہ داری ہے۔ علامہ اقبال نے ایک ایسی فلاحی اسلامی مملکت کا خواب دیکھا تھا جس میں ہر قسم کے جبر کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جائے اور استحصالی نظام کا قلع قمع کر دیا جائے۔ انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور بصیرتوں کی تجسیم اس موثر انداز میں کی ہے کہ قاری ان کے فکر پرور اور بصیرت افروز خیالات سے اپنے دل میں ایک ولولہ ء تازہ محسوس کرتا ہے۔ اپنے مضمون ’’قومی زندگی ‘‘میں انھوں نے قومی فلاح کے لیے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ جس طرح ممکن ہو ملت اسلامیہ کو اپنے مستقبل کے لیے ایک ٹھوس حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔ مستقبل کے چیلنج سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے تعلیم پر توجہ ضروری ہے۔ انھوں نے تعلیم نسواں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسے اسلامی مملکت کے لیے نا گزیر قرار دیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اسلامی تہذیب و تمدن کے مطابق تعلیم کی ترقی کے آرزومند تھے۔ اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے :
ــ’’ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ تمدن کی جڑ کی طرف اپنی توجہ مبذول کریں اور اپنی قوم کی عورتوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر یں۔ مرد کی تعلیم صرف ایک فرد واحد کی تعلیم ہے، مگر عورت کو تعلیم دینا حقیقت میں تمام خاندان کو تعلیم دینا ہے۔ دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ اگر اس قوم کو آدھا حصہ جاہل مطلق رہ جائے۔ لیکن اس ضمن میں ایک غور طلب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مشرقی عورتوں کو مغربی عورتوں کے مطابق تعلیم دی جائے یا کوئی ایسی تدبیر اختیار کی جائے جس سے ان کے وہ شریفانہ اطوار جو مشرقی دل و دماغ کے ساتھ خاص ہیں قائم رہیں۔ میں نے اس سوال پر غور و فکر کیا ہے مگر چونکہ اب ملک کسی قابل عمل نتیجے پر نہیں پہنچا اس واسطے فی الحال میں اس بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ ‘‘(3)
علامہ اقبال کا خیال ہے کہ ایمان کی ابد آشنا قوت زندگی کی حقیقی معنویت کی مظہر ہے۔ یہ قوت جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے روکتی ہے اور اس جانب متوجہ کرتی ہے کہ انسان جب اپنے خالق کے حضور ایک سجدہ کر تا ہے تو وہ اپنی اس بندگی کے اعجاز سے بتان وہم و گماں کے سامنے ہزار سجدوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ ملت اسلامیہ کی فلاح کے لیے علامہ اقبال نے قوت ایمان کی نمو پر زور دیا ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بھی اگر انسان اپنے قلب ا ور روح کی گہرائیوں میں حضرت ابراہیم ؑجیسا ایمان پیدا کر لے تو آلام روزگار کی دہکتی ہوئی آگ بھی انداز گلستاں پیدا کر کے آزمائش و ابتلا کی گھڑیوں میں حوصلے اور امید کی شمع فروزاں کر سکتی ہے۔

قوت ایماں حیات افزا ید ت
ورد لا خوف علیھم با ید ت
چوں کلیمے سوئے فرعو نے رود
قلب او از لا تخف محکم شود
بیم غیر اللہ عمل را دشمن است
کا روان زندگی را رہزن است
عزم محکم ممکنات اند یش از
ہمت عالی تامل کیش ازو
تخم او چوں در گلت خودرا نشاند
زندگی از خود نمائی باز ماند
فطرت او تنگ تاب و ساز گار
بادل لر زان و دست رعشہ دار
دزو دا ز پا طاقت رفتار را
میر با ید از دماغ افکار را
دشمنت ترساں اگر بیند ترا
از خیا با نت چو گل چیند ترا (4)

علامہ اقبال نے اہل مغرب کی اس فکری کجی کی جانب توجہ مبذول کرائی جب انھوں نے بنی نوع انسان کی فلاح کے بجائے محدود نوعیت کی علاقائی اور نسلی آبادی کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ انھوں نے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو ہمیشہ اپنا مطمح نظر بنایا۔ ان کے نزدیک ملت اسلامیہ کو ایک وحدت اجتماعی کی حیثیت حاصل ہے اسی کی اساس پر اسلامی قومیت کا قصر عالی شان تعمیر ہوتا ہے۔ ازل سے لے کر لمحۂ موجود تک چراغ مصطفوی ﷺ سے شرارار بو لہبی ستیزہ کار رہا ہے۔ اس کی شدت میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ ملت اسلامیہ کی وحدت لادینی قوتوں کی اجتماعی قوت کے سامنے ہر دور میں سیسہ پلائی دیوار بن کر اپنے وجود کا اثبات کرتی چلی آئی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک خطبے میں اسی جانب اشارہ کیا ہے :
’’اسلام کے نزدیک ذات انسانی بجائے خود ایک وحدت ہے۔ خدا اور کائنات، کلیسا اور ریاست، روح اور مادہ دراصل ایک ہی کل کے اجزا ہیں۔ ‘‘(5)
علامہ اقبال نے متعدد حکایات، تلمیحات اور علامات کی مدد سے ملی اقدار و روایات کو پروان چڑھانے کی سعی کی ہے۔ فکر اقبال کا اہم پہلو یہ ہے کہ زندگی کی اقدار عالیہ کا فروغ تہذیبی ارتقا اور بقا کے لیے نا گزیر ہے۔ اہل مغرب نے ملت کا جو تصور پیش کیا ہے اس کا انحصار رنگ و نسب پر ہے جب کہ اسلامی قومیت مذہب کی اساس پر استوار ہے۔ معاشرتی زندگی میں افراد اس قسم کی اجتماعی زندگی بسر کرتے ہیں جن کا اخلاقی اقدار کے تابع ہونا سماجی زندگی کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ تہذیب و تمدن کی روایات کو اس سے تقویت ملتی ہے۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ملت کی تقویم فرد کی تقویم سے الگ صورت رکھتی ہے۔ معاشرتی زندگی کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں علامہ اقبال نے نہایت خلوص اور دردمندی سے اپنا موقف پیش کیاہے۔ ان کے افکار کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ وہ انفرادی شعور کو مہمیز کرنے کی ضرورت سے آگاہ تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انفرادی شعور کی بیداری جہد و عمل کو یقینی بنا سکتی ہے۔ علامہ اقبال نے جب یہ کہا کہ اقوام کی تقدیر افراد کے ہاتھوں میں ہے اور ہر فرد کو ملت کے تابندہ ستارے کی حیثیت حاصل ہے تو وہ یہ واضح کر دینا چاہتے تھے قومی فلاح اور ملی ترقی کی تمام صورتیں اخلاقی ترقی کا ثمر ہیں۔ جب تک افراد معاشرہ میں اخلاقی بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک معاشرتی زندگی میں امن و عافیت پر مبنی ماحول کا پیدا ہونا سراب محسوس ہوتا ہے۔ ارسطو نے جب انسان کو ایک ’’اجتماعی حیوان ‘‘کہا تو یہ بات گہری معنویت کی حامل تھی۔ علامہ اقبال نے بھی اپنے افکار میں فرد کی معاشرتی زندگی میں اہمیت کو اجاگر کیا اور ملی ترقی کے لیے فرد کے کردار کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا۔ مذہب کی آفاقی تعلیمات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا مثبت نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملی اتحاد اور قومی استحکام کو اس سے تقویت ملتی ہے۔
علامہ اقبال نے اپنی تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے متعدد نئے حقائق کی گرہ کشائی کی ہے۔ ان کے افکار میں قومی درد، خلوص اور انسانی ہمدردی کے جذبات کی فراوانی ہے۔ بر عظیم کے مسلمانوں کی قومی شخصیت کی نمو میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ملی فلاح اور بہبود کے متعلق ان کی سوچ تاریخ کے مسلسل عمل کی جانب توجہ دلاتی ہے۔ انھوں نے بر عظیم کی ملت اسلامیہ کا وہ دور دیکھا تھا جب وہ ابھی تک توسیع کے مر حلے سے گزر رہی تھی۔ اس مرحلے پر انھوں نے ملت اسلامیہ کی فلاح، ترقی، استحکام، دوام اور خوش حالی کا جو خواب دیکھا اس کی تعبیر یہ ہے کہ آج بر عظیم کی ملت اسلامیہ ایک آزاد اور خود مختار ملک میں اپنی جداگانہ پہچان رکھتی ہے۔ قومی استحکام کی منزل تک رسا ئی کے لیے علامہ اقبال نے اپنی تخلیقی فعالیت اور فکری وسعت کو مشعل راہ بنایا۔ وہ چاہتے تھے کہ بر عظیم کی ملت اسلامیہ تاریخ کے مسلسل عمل سے آگاہی حاصل کرے اور جریدۂ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دے۔ جب ملت تار یخ کے شعور سے متمتع ہو گئی تو اسے تہذیبی میراث تک رسائی حاصل ہو گئی۔ اس کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرتی، سماجی اور تہذیبی زندگی کے معائر بدل گئے۔ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت نے دلوں میں ایک ولولۂ تازہ پید ا کر دیا۔ استعماری دور کے خاتمے کے بعد ملت اسلامیہ جس اجتماعی وحدت سے آشنا ہوئی، اس کی وجہ سے اسے ہر شعبۂ زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے فراواں مواقع میسر آئے۔ اس طرح قومی ترقی اور خوش حالی کے دور کا آغاز ہوا۔ آج جب ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو فکر اقبال کے یہ منور گوشے ہمیں ایام گزشتہ کے بارے میں متعدد نئے حقائق سے روشناس کراتے ہیں۔ وہ سعیِ پیہم کو ترازوئے کم و کیف حیات قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حیات جاوداں کا راز ستیزمیں پوشیدہ ہے۔ تاریخ کا یہ شعور ہر دور میں فکر و نظر کو مہمیز کرتا رہے گا۔ علامہ اقبال کے افکار ملت اسلامیہ کے ضمیر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی خیال افروز اور فکر پرور تحریروں سے ایک ا یسی ذہنی فضا تیار کی جو حرف صداقت کی مظہر ہے۔ اس کا نمایاں ترین وصف ملی فلاح اور بہبود کا تصور ہے۔ علامہ اقبال کے تصورات کی قطعیت ملت اسلامیہ کے لیے مژدۂ جانفزا ہے۔ یہ ایک منفرد اور متنوع احساساتی کیفیت تھی جس نے اس عہد میں قومی کردار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔

مآخذ

1۔ محمد اقبال، علامہ ڈا کٹر، اسرار و رموز، ٍ کلیات اقبال (فارسی) شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، صفحہ 86۔
2۔ محمد اقبال، علامہ ڈا کٹر، اسرار و رموز، ٍ کلیات اقبال (فارسی)، صفحہ 95۔
3۔ محمد اقبال، علامہ ڈا کٹر، قومی زند گی، مقالات اقبال، مر تبہ سید عبد الواحدمعینی، القمر انٹر پرائزز، لاہور، 2011 ، صفحہ 93۔
4۔ محمد اقبال، علامہ ڈا کٹر، اسرار و رموز، ٍ کلیات اقبال (فارسی)، صفحہ 95۔
5۔ عابد علی عابد سید:شعر اقبال، بزم اقبال، لاہور، 1993، صفحہ 143۔

فضہ پروین

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button