- Advertisement -

وہ خط جو پوسٹ نہ کیے گئے

اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو

وہ خط جو پوسٹ نہ کیے گئے

حوا کی ایک بیٹی کے چند خطوط جو اس نے فرصت کے وقت محلے کے چند لوگوں کو لکھے۔ مگر اُن وجوہ کی بنا پر پوسٹ نہ کیے گئے جو اِن خطوط میں نمایاں نظر آتی ہیں۔ (نام اور مقام فرضی ہیں) پہلا خط مسز کرپلانی کے نام خاتونِ مکّرم آداب عرض۔ معاف فرمائیے گا۔ میں یہ سطور بغیر تعارف کے لکھ رہی ہُوں۔ مگر مجھے چند ضروری باتیں آپ سے کہنا ہیں۔ آپ کو میں ایک عرصے سے جانتی ہُوں۔ ہر روز صبح ساڑھے آٹھ بجے جب میں بسترسے اُٹھ کر بالکنی میں آتی ہُوں۔ تو آپ کو بازار میں سیر سے واپس آتے دیکھا کرتی ہوں۔ مجھے تعجب ہے کہ مسٹر کرپلانی جنھیں ساڑھے آٹھ بجے گھر سے دفتر پہنچنے کے لیے نکل جانا ہوتا ہے۔ صرف ایک بڈھی نوکرانی کی موجودگی اور آپکی غیر حاضری میں ناشتہ کیسے کرتے ہیں، کپڑے کیوں کر تبدیل کرتے ہیں اور پھر آپکا بچہ بھی تو ہے۔ اس کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیر آپ کی صحت کے لیے مفید ہے۔ مگر اس سیر کا اثر آپ کے شوہر پر کیا پڑے گا، کیا آپ نے اس کی بابت کبھی غورکیا ہے؟۔ میں نے پرسوں مسٹر کرپلانی کو دیکھا۔ ان کی حالت قابل رحم تھی۔ آپ نے سرپر ہیٹ اُلٹا لگا رکھا تھا اور اگر میری نگاہوں نے دھوکا نہیں دیا تو ان کے بوٹ کا ایک تسمہ کھلا ہُوا تھا۔ جو بار بار ان کے پاؤں میں الجھ رہا تھا۔ کل بھی آپ کی حالت ایسی ہی تھی۔ ان کی پتلون شکنوں سے بھرپور تھی اور ٹائی کی گرہ بھی دُرست نہیں تھی۔ اگر آپ کی صبح کی سیر اسی طرح جارہی رہی۔ تو مجھے اندیشہ ہے ایک روز مسٹر کرپلانی اس افراتفری میں دفتر کا رخ کریں گے کہ راہ چلتی عورتوں کو اپنی آنکھیں بند کرنی پڑیں گی۔ اور ہاں، دیکھیے کل آپ نے جو ساڑھی پہن رکھی تھی۔ وہ آپکی نہیں ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مسز اڈوانی نے یہ ساڑھی پچھلی دیوالی پر خریدی تھی۔ دوسروں کے کپڑے پہننا بہت معیوب ہے۔ آپکے پاس کم از کم بیس ساڑیاں موجود ہیں۔ مسز اڈوانی کی ساڑھی مستعار لے کر آپ نے کیوں پہنی۔ یہ میں ابھی تک نہیں سمجھ سکی۔ ایک بات اور۔ وہ یہ کہ آپ کو بغیر آستینوں کا بلاؤز اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ آپ کے کاندھوں پر ضرورت سے زیادہ گوشت ہے۔ جسکی نمائش آنکھوں پر بہت گراں گزرتی ہے۔ آپکے جسم کا یہ عیب آستینوں والے بلاؤز میں چھپ جاتا ہے۔ اس لیے آپکو ہمیشہ اسی تراش کا بلاؤز پہننا چاہیے۔ اونچی ایڑی کا شو آپ کیوں پہنتی ہیں؟۔ آپ کا قد ماشاء اللہ کافی اُونچا ہے۔ پرسوں آپ نے غیر معمولی اونچی ایڑی کا سینڈل پہن رکھا تھا۔ معاف فرمائیے۔ معلوم ہوتا تھا کہ آپ کے پیروں کے ساتھ اسٹول بندھے ہوئے ہیں۔ اونچی ایڑی کا جوتا پہن کر آپ آسانی سے چل بھی نہیں سکتیں۔ خواہ مخواہ کیوں اپنے آپ کو تکلیف دیتی ہیں۔ آپ کی۔

دوسرا خط مسز اڈوانی کے نام محترم بہن تسلیمات۔ میں نے پچھلے دنوں آپ کو باندرہ کے میلے پر چند سہیلیوں کے ساتھ دیکھا تھا۔ آپ نے پیلے رنگ کی جارجٹ کی ساڑھی پہن رکھی تھی۔ بورڈر کے بغیر۔ بلاؤز کالی ساٹن کا تھا۔ کھلے گلے کا، آستینوں کے بغیر۔ گلے پر زرد رنگ کی سائٹ کا پائپنگ تھا اور سامنے سینے پر اسی رنگ کا پھول۔ پاؤں میں آپکے سنہری سینڈل تھی۔ چھاتا سیاہ رنگ کا تھا جس کی مونٹھ زرد رنگ کے سلولائیڈ کی تھی۔ کالے بالوں میں پیلا ربن تھا۔ سیاہی اور زردی کا یہ میل مجھے بہت پسند آیا تھا۔ آپ کے ذوق کی میں بے حد معترف ہوں۔ رنگوں کے صحیح التزام کا آپ خوب سلیقہ رکھتی ہیں۔ مگر کل آپ جب بَس پر سے اُتریں تو مجھے یہ دیکھ کر سخت صدمہ ہوا کہ آپ نے کالی ساڑھی کے ساتھ بُھوسلے رنگ کا بلاؤز پہن رکھا ہے آپ کے بالوں میں نیلا ربن گندھا ہے اور جوتا سفید کینوس کا پہن رکھا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ ایسی اعلیٰ ذوق رکھنے والی خاتون نے کیوں کر ایسے بھونڈے لباس میں باہر نکلنا گوارا کیا۔ اور پھر غضب یہ ہے کہ آپ بَس میں کہیں دُور گئی تھیں۔ آئندہ اگر میں نے آپ کو ایسے بے تُکے لباس میں دیکھا تو مجھے اتنا صدمہ ہو گا کہ میں بیان نہیں کرسکوں گی۔ ایک بات اور میری سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ کی نوکرانی اتنا سنگھار کیوں کرتی ہے؟ اس کی عمر میرے انداز کے مطابق اٹھارہ برس ہے۔ بظاہر وہ کنواری ہے۔ اس عمرمیں اور خاص کر کنوارپنے میں اس کا یوں بن کر سنور کر سودا سلف لینے باہر بازار نکلنا اتنا خطرناک نہیں۔ جتنا کہ اس کا آپکے گھر میں اپنے سنگھار پر توجہ دینا ہے۔ آپ عموماً گھر سے باہر رہتی ہیں۔ اور مسٹر اڈوانی چونکہ دفتر نہیں جاتے۔ اس لیے وہ اکثر گھر ہی میں رہتے ہیں۔ آپ کی غفلت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتی۔ میرا خیال ہے کہ آپ کی دائیں آنکھ بائیں آنکھ سے کچھ چھوٹی ہے۔ اگر آپ چشمہ پہنا کریں تو یہ عیب بالکل دُور ہو جائے گا۔ کیونکہ شیشوں میں سے یہ معمولی فرق نظر نہ آئے گا۔ ہاں، یہ آپ اپنی سہیلیوں کو اپنی ساڑھیاں پہننے کے لیے کیوں دے دیا کرتی ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بدعت معاشرتی نقطہ ءِ نظر سے بہت بُری ہے۔ اس کے علاوہ سہیلیاں خواہ کتنی ہی محتاط ہوں۔ مستعار کپڑے کو نہایت بے دردی کے ساتھ استعمال کرتی ہیں اگر آپ کو یقین نہ ہو تو اس سفید ساڑھی کو غور سے دیکھیے جو آپ نے ایک روز مسزکر پلانی کو پہننے کے لیے دی تھی۔ اس کا تِلے کا کام کئی جگہ سے اکھڑ گیا ہے۔ بازار میں چلتے وقت آپ بار بار ساڑھی کا پلو نہ سنبھالا کریں۔ مجھے اس سے بڑی الجھن ہوتی ہے۔ آپکی۔

تیسرا خط مسٹر ایوب خان انسپکٹر پولیس کے نام مکّرمی محترمی۔ سلام مسنون کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ دن میں دو بار اپنی داڑھی منڈوانا چھوڑ دیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ نارمل آدمی کی داڑھی کے بال نارمل حالت میں اتنی جلدی کبھی نہیں اُگتے۔ پولیس اسٹیشن جاتے ہوئے اور وہاں سے شام کو آتے ہُوئے آپ کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ سیلون میں داخل ہو جائیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو MANIA ہو گیا ہے۔ اگر آپکا دماغی توازن درست ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ دن میں دوبار صبح و شام اپنی داڑھی پر اُسترا پھرائیں۔ کیا سیلون کا نائی آپ کی اس عجیب و غریب عادت پر زیرِ لب کبھی نہیں مسکرایا۔ اور پھر یہ آپ اپنے سر کے بال کس طور سے کٹواتے ہیں؟۔ واللہ بہت بُرے معلوم ہوتے ہیں۔ گردن سے لے کر کھوپڑی کے بالائی حصے تک آپ بالوں کا بالکل صفایا کرادیتے ہیں اور کانوں کے اوپر تک باریک مشین پھروا کر آخر آپ کیا فیشن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت آپ کی گردن بہت بھدی ہے اور آپ کے سر کے نچلے حصے پر پھوڑوں کے نشان ہیں جو صرف بال ہی چھپا سکتے ہیں اور کیا آپ نے کبھی غور فرمایا ہے کہ بار بار بال مونڈنے سے آپ کی گردن موٹی ہو جائے گی۔ آپ کے کان بہت بڑے ہیں۔ جس فیشن کی حجامت کا آپ کو شوق ہے۔ اس سے یہ اور بھی زیادہ بڑے دکھائی دیتے ہیں۔ میری رائے ہے کہ آپ قلمیں رکھیں۔ اور کانوں کے قریب سے بال زیادہ نہ کٹوائیں۔ گردن پر اگر آپ تھوڑے سے بال اُگنے دیں تو کوئی ہرج نہیں۔ اس سے آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ ہاتھ میں چھڑی لے کر جب آپ بازار میں چلتے ہیں تو دماغ میں اس خیال کو جگہ نہ دیا کریں کہ ہر اسکول جانے والی لڑکی آپکو دیکھ رہی ہے۔ کسی شائستہ مذاق لڑکی کی آنکھیں آپ کی طرف نہیں اُٹھ سکتیں۔ اس لیے کہ آپ اپنے کاندھوں پر ایسا بھونڈا سر اُٹھائے پھرتے ہیں۔ جس کو آپ کے ایجاد کردہ فیشن نے اور بھی زیادہ بدنما بنا رکھا ہے۔ بار بار آپ اپنے کوٹ سے کیا جھاڑا کرتے ہیں؟ کیا گردوغبار کے ذرّے صرف آپ ہی کے کوٹ پر آبیٹھتے ہیں۔ یا پھر آپ حد سے زیادہ نفاست پسند ہیں؟ کسی نے مجھ سے کہا تھا۔ کہ چالیس برس کے ہونے پر بھی آپ کنوارے ہیں؟ اگر یہ سچ ہے تو اس سے آپ کو عبرت حاصل کرنا چاہیے۔ میرا مشورہ لیجیے۔ اور دن میں دوبار سیلون میں جا کر داڑھی منڈوانا چھوڑ دیجیے۔ خدا آپ کی حالت پر رحم کرے۔ آپکی مخلص۔

چوتھا خط مِس ڈی سِلوا کے نام ڈیئر مِس ڈی سِلوا۔ تمہاری حالت پر مجھے بہت افسوس ہوتا ہے۔ تم روز بروز موٹی ہورہی ہو۔ اگر تمہارا موٹاپا اسی رفتار سے بڑھتا گیا تو مجھے اندیشہ ہے کہ تم کسی مرد کے قابل نہ رہو گی۔ اسکول جانے کیلیے جب تم

’’جم‘‘

پہن کر گھر سے نکلتی ہو تو میرے دل میں عجیب وغریب خیال پیدا ہوتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ اس کرسمس پر تم ڈانس کیسے کرسکو گی۔ ایک دو قدموں ہی میں تمہارا پسینہ چھوٹ جائے گا۔ اور تمہارا ساتھی کیوں کرتمہاری بانہوں کو حسب منشا حرکت میں لاسکے گا۔ تمہاری بغلوں کے نیچے اس قدر گوشت جمع ہورہا تھا کہ تم ڈانس کرنے کے بالکل قابل نہیں رہی ہو۔ خدا کے لیے اپنا علاج کرو اور اس موٹاپے کوجلد از جلد ختم کرنے کی کوشش کرو۔ ایک نصیحت میری اور سُن لو۔ شام کو تم ہر روز ٹیرس پر اکیلی جاتی ہو۔ اور سامنے والے مکان پر ڈی کوسٹا کے بڑے لڑکے کو اشارے کرتی رہتی ہو۔ اوّل تو یہ شریف لڑکیوں کا کام نہیں۔ دوسرے یہ اشارے چربی بھرے گوشت کے مانند بھدے اور بے لذّت ہوتے ہیں۔ تم جیسی موٹی لڑکیوں کو ایسی اشارہ بازی نہیں کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ اشارہ ایک لطیف یعنی باریک اور پتلی چیز کا نام ہے۔ تمہارے اشارے، اشارے نہیں ہوتے۔ ان کے لیے مجھے کوئی اور نام تلاش کرنا ہو گا۔ جس لونڈے کے ساتھ تم رومان لڑانا چاہتی ہو۔ اسکے متعلق بھی سُن لو۔ وہ ایک آوارہ مزاج لڑکا ہے۔ ڈھائی مہینے سے کالی کھانسی میں مبتلا ہے۔ ماں باپ نے ناقابلِ اصلاح سمجھ کر اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ اسکے پاس صرف تین پتلونیں ہیں۔ جن کوبدل بدل کر پہنتا ہے۔ ہر روز اپنی قمیض اور پتلون پر وہ دو بار استری کرتا ہے تاکہ باہر کے لوگوں کی نظر میں اس کی وضع داری قائم رہے۔ مجھے ایسے آدمیوں سے نفرت ہے۔ تم اپنی پنڈلیوں کے بال استرے سے نہ مونڈا کرو۔ بال اڑانے کے سب پوڈر اور سب کریمیں بھی فضول ہیں۔ بال ہمیشہ کے لیے کبھی غائب نہیں ہوسکتے اس لیے تم اپنی پنڈلیوں پر ظلم نہ کرو۔ بال رہنے دو اور لمبی جُرابیں پہنا کرو۔ تمہارا دوست آج دوپہر کو اپنا پھٹا ہُوا جُوتا خود مرمت کررہا تھا۔ تمہاری خیر خواہ۔

پانچواں خط کوشلیا دیوی کے نام شریمتی کوشلیا دیوی۔ نمسکار اس میں کوئی شک نہیں۔ اپنے گھر میں ہر شخص کو اختیار ہے کہ وہ آرام دہ سے آرام دہ لباس پہنے اور تکلّفات سے آزاد رہے۔ مگر دیوی جی آپ ململ کی باریک دھوتی پہن کر اس آزادی سے ناجائز فائدہ اُٹھا رہی ہیں اور پھر یہ دھوتی آپ کچھ اس

’’بے تکلفی‘‘

سے پہنتی ہیں کہ جب آپ اتفاق سے نظر آجائیں تو سوچنا پڑتا ہے کہ آپ کو کس زاویے سے دیکھا جائے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے۔ روشنی کے سامنے کھڑے ہونے سے آپکی ململ کی دھوتی کا وجود ہونے نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ آپ کی عمر اس وقت چوالیس برس کے قریب ہے۔ عمر کی اس زیادتی نے آپکے جسم کو بالکل ڈھیلا کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باریک دھوتی میں سے آپکی بھدی ٹانگوں کی نمائش آنکھوں پر

’’گوہاسنجنی‘‘

بن کر رہ جاتی ہے۔ آپ کے فلیٹ کا دروازہ عام طور پر کھلا رہتا ہے اورمیں نے اکثر آپ کو باورچی خانہ کے پاس یہی باریک دھوتی پہنے دیکھا ہے اگر آپ کو اس کا استعمال ترک نہیں کرنا ہے تو براہ کرم اپنے فلیٹ کا دروازہ بند رکھا کریں۔ آپ کی۔

چھٹا خط مسٹر سعید حسن جرنلسٹ کے نام جناب من۔ تسلیم۔ آپ ہر روز صبح بالکونی میں پتلون پہنتے ہیں۔ آپ کا یہ فعل کمیونزم کی بدترین مثال ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ خط پڑھ کر آپ ضرور شرمسار ہونگے۔ اور آئندہ سے پتلون شریف آدمیوں کی طرح اپنے کمرے میں پہنا کریں گے۔ مخلص۔ مکرر:۔ آپ کے بال بہت بڑھ گئے ہیں۔ سیلون آپ کے مکان کے نیچے ہے۔ ہمت کرکے آج ہی کٹوا دیں۔

ساتواں خط مِسز قاسمی کے نام خاتونِ مکرم۔ السلام علیکم۔ میں بہت عرصے سے آپکو یہ خط لکھنے کا ارادہ کررہی تھی مگر چند در چند وجوہ کے باعث ایسا نہ کرسکی۔ میں نے سُنا ہے کہ دو گھروں میں نفاق پیدا کرنے کے لیے آپ کو بہت سے گُر زبانی یاد ہیں۔ مسز اڈوانی اور مسز کرپلانی کے درمیان ایک دفعہ آپ ہی کی کوششوں سے رنجش پیدا ہُوئی تھی۔ اور پچھلے دنوں سیٹھ گوپال داس کی لڑکی پشپا کے بارے میں آپ نے جو افواہیں مشہور کی تھیں ان سے سیٹھ گوپال داس اور سیٹھ رام داس کے خاندانوں میں اچھا خاصا ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ مجھے آپکی صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔ مگر میں سوچتی ہوں کہ ابھی تک آپ کے اور مسز قانون گو کے درمیان کشیدگی پیدا کیوں نہیں ہُوئی۔ اب تک آپ نے جس عورت کو اپنی سہیلی بنایا ہے اس سے تیسرے چوتھے مہینے آپ کی تُو تُو مَیں مَیں ضرور ہوتی ہے۔ لیکن مسز قانون گو سے آپ کی دوستی کو چھ مہینے ہو گئے ہیں۔ جو کئی برسوں کے برابر ہیں۔ میں اب زیادہ دیر انتظار نہیں کرسکتی۔ اس مہینے میں مسز قانون گو سے آپکی چخ چخ ضرور ہونی چاہیے۔ آپ کو اپنی روایات برقرار رکھنی چاہئیں۔ ہاں یہ ضرور بتائیے کہ آپ کہاں پیدا ہُوئی تھیں۔ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ آپ پنجاب کی رہنے والی ہیں۔ مگر آپ کا چہرہ نیپالیوں اور تبتیوں سے کیوں ملتا جلتا ہے؟ آپکی ناک بالکل نیپالیوں کی طرح چپٹی ہے۔ اور گالوں کی ہڈیاں بھی انہی کی طرح ابھری ہُوئی ہیں، البتہ آپکا قد ان کی طرح پست نہیں۔ آپ نے عید پر جو ساڑھی پہنی تھی۔ مجھے پسند نہیں آئی۔ آپ کا ذوق نہایت فضول ہے۔ اگر آپ بھڑکیلے اور شوخ رنگوں کے بجائے ہلکے رنگ کے کپڑے انتخاب کیا کریں تو بہت اچھا ہو۔ لمبے قد کی عورتوں کو کھڑی لکیروں کی قمیض نہیں پہننی چاہیے۔ اس سے وہ اور لمبی ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح آپ کو

’’پف سیلوز‘‘

کا بلاؤز بھی نہیں پہننا چاہیے۔ کیونکہ لمبے قد کی عورتوں کے لیے یہ موزوں نہیں ہوتا۔ اور پھر آپ تو ویسے ہی دُبلی پتلی ہیں۔ آپکے کاندھے پر بلاؤز کے اُٹھے ہُوئے

’’پف‘‘

بہت بُرے معلوم ہوتے ہیں۔ آپکی خیر اندیش۔

آٹھواں خط مِس راجکماری ایکٹرس کے نام مِس راجکماری مجھے تم سے نفرت ہے۔ تم عورت نہیں ہو۔ سوٹ کیس ہو۔ تم سے نفرت کرنیوالی۔

نواں خط مسٹر صالح بھائی کنٹریکٹر کے نام جناب صالح بھائی صاحب۔ تسلیم۔ مجھے آپکے خلاف کوئی شکایت نہیں لیکن پھر بھی میں آپکو پسند نہیں کرتی۔ نہ معلوم کیا وجہ ہے کہ آپکو دیکھ کر میرے دل میں غیظ و غضب پیدا ہو جاتا ہے۔ آپ بہت شریف آدمی ہیں۔ آپ کی شکل و صورت بھی کوئی خاص بُری نہیں۔ لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر آپ کو میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے کیوں دیکھتی ہُوں۔ آپ کے چہرے پر یتیمی برستی ہے، آپکی چال بھی نہایت واہیات ہے۔ آپکی ہمدرد۔

دسواں خط مِس رضیہ صلاح الدین کے نام ڈیئر مِس رضیہ۔ سلام مسنون۔ تم ابھی ابھی پنجاب کے کسی گاؤں سے آئی ہو۔ پہلے ساڑھی پہننے کی عادت اختیار کرو پھر اس لباس میں باہر نکلو۔ تمہیں یہ لباس پہننے کا بالکل سلیقہ نہیں ہے۔ خدا کے لیے اپنے آپ کو تماشہ نہ بناؤ۔ تمہاری خیر خواہ۔

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شجاع شاذ کی ایک اردو غزل