تجھے لگتا ہے فقط کرکے اشارہ گئے ہیں
آنکھوں آنکھوں میں سبھی کچھ ہی تو بتلا گئے ہیں
سالہا جذبۂِ اظہار یوں پالا تھا کہ پھر
لفظ خود بول کے کہتے تھے کہ وہ آگئے ہیں
دشت آباد کسی وقت بھی ہو سکتا ہے
اک سخن ور کا جدھر لے کے جنازہ گئے ہیں
دیکھئے وہ ہیں سکھاتے ہمیں اسلوبِ خطاب
خود کے اندازِ تکلم سے جو اکتا گئے ہیں
نگہتِ گل میں بھی اب لطف نہیں باغباں کو
اور بہاروں کو بھی پیغامِ خزاں آگئے ہیں
اب پکاروں میں انہیں کونسے ناموں سے زمل
خوابِ اقبال کو مردار سمجھ کھا گئے ہیں
ناصر زملؔ