یہ وحشت ناک منظر کی جھلک محسوس ہوتی ہے
جو ویراں شہر کی وسطی سڑک محسوس ہوتی ہے
دکھائی دے رہی ہو جیسے کوئی دھول گھوڑوں کی
سپہ سالار کو تازہ کمک محسوس ہوتی ہے
کسی بھی یار نے پردیس جانے سے نہیں روکا
ابھی تک میرے دل میں یہ کسک محسوس ہوتی ہے
میں اپنے گھر کے آنگن میں سماعت چھوڑ آیا ہوں
مرے کانوں میں چوڑی کی کھنک محسوس ہوتی ہے
بھیانک زلزلے نے بستیوں کو خاک میں بدلا
مجھے اب تک زمیں کو وہ دھمک محسوس ہوتی ہے
میرے کاندے پہ رکھ کر ہاتھ ماں نے تھپتھپایا تھا
بدن میں آج بھی اُس کی تھپک محسوس ہوتی ہے
یہ دل کی بے قراری بے سبب ہوتی نہیں صابرؔ
کسی طوفان کی پھرسے بھنک محسوس ہوتی ہے
ایوب صابر