جانے کس دشت کا آزار ہو کل ساتھ مرے
میں ہوائے شب ہِجراں ہوں نہ چل ساتھ مرے
میں تو پابند کروں وحشتِ دل کو لیکن
راہ کہتی ہے کہیں دور نکل ساتھ مرے
تجھ سے اس شہر کے رنگوں میں توانائی ہے
بے وجہ عکسِ پریشان میں نہ ڈھل ساتھ مرے
تجھ میں بے چین پرندوں کی ابھی تاب نہیں
یوں نہ حالات کے پنجرے سے نکل ساتھ مرے
ہم سفر ہے تو پس و پیش تماشائی کیا
گر مرے ساتھ مری جان سنبھل ساتھ مرے
تجھ سے پتھر کو گہر کر دے مرے دل کی تپش
آ کبھی حبسِ شب ِ غم میں پگھل ساتھ مرے
کس نظر نے مجھے نزدیک سے دیکھا ہے سعید
پھر سے سرگوشیاں کرتی ہے غزل ساتھ مرے
سعید خان