- Advertisement -

وقف رستے میں کھڑا ہے کہ نہیں

باقی صدیقی کی ایک اردو غزل

وقف رستے میں کھڑا ہے کہ نہیں
دل سے اب پوچھ خدا ہے کہ نہیں

صحبت شیشہ گراں سے انکار
سنگ آئنہ بنا ہے کہ نہیں

ہر کرن وقت سحر کہتی ہے
روزن دل کوئی وا ہے کہ نہیں

رنگ ہر بات میں بھرنے والو
قصہ کچھ آگے بڑھا ہے کہ نہیں

زندگی جرم بنی جاتی ہے
جرم کی کوئی سزا ہے کہ نہیں

دوست ہر عیب چھپا لیتے ہیں
کوئی دشمن بھی ترا ہے کہ نہیں

زخم دل منزل جاں تک آئے
سنگ رہ ساتھ چلا ہے کہ نہیں

کھو گئے راہ کے سناٹے میں
اب کوئی دل کی صدا ہے کہ نہیں

ہم ترسنے لگے بوئے گل کو
کہیں گلشن میں صبا ہے کہ نہیں

حکم حاکم ہے کہ خاموش رہو
بولو اب کوئی گلہ ہے کہ نہیں

چپ تو ہو جاتے ہیں لیکن باقیؔ
اس میں بھی اپنا بھلا ہے کہ نہیں

باقی صدیقی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از ارشاد نیازی