میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
آپ اپنی زندگی میں ایسے بیشمار لوگوں سے ملتے ہوں گے جو بغیر کچھ کیئے آوارہ اور بے خانماں رہتے ہیں اور اپنی زندگی کو اسی طرح گزار دیتے ہیں ایسے لوگ ہر وہ شہ کو قبول کرلیتے ہیں جو قسمت ان کے لیئے لیکر آتی ہے اب یہ محض ایک اتفاق ہوسکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں سے کچھ اپنی زندگی میں کامیاب ہو جاتے ہوں ورنہ بیشتر لوگ اپنی زندگی اضطراب ، مایوسی ، ناخوشی اور افسردگی میں گزار دیتے ہیں ایسے لوگ نہ تو زندگی میں کامیابی کا عزم کیئے ہوئے ہوتے ہیں اور نہ ہی کامیابی حاصل کرنے کے لیئے ضروری اقدامات پر عمل کرنے کے لیئے تیار ہوتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اصل میں ہمارے کامیابی کا مقصد کسی چیز پر عبور حاصل کرنا ہوتا ہے یعنی کوئی سبق مل جائے تو اسے جیسے تیسے رٹا لگا کر یاد کرلیا جائے اور بوقت ضرورت اسے استعمال کرلیا جائے جبکہ کامیابی اس کا نام نہیں ہے بلکہ سبق کو پڑھنا پھر اچھی طرح سمجھنا پھر یاد کرنا اور پھر اس کا استعمال کرنا اصل کامیابی کا ہنر ہے کیونکہ جب آپ کسی چیز کو اچھی طرح دلچسپی کے ساتھ اور اس پر پوری طرح اپنا رجحان یعنی Trend کرتے ہوئے پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں تو وہ خود بخود آپ کے ذہن میں نقش ہوجاتی ہے پھر اسے یاد کرنے کی نہیں صرف یاد رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
کامیابی کا اصل ہے کسی بھی چیز پر اپنا رجحان مظبوط کرنا رجحان کے معنی ہیں جھکنا یا دلچسپی لینا جب ہم کسی جگہ یا کسی چیز پر اپنا رجحان مظبوطی کے ساتھ قائم کریں گے تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جایئں گے ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق یہ معلوم ہوا کہ کوئی شخص ملازمت حاصل کرکے اس میں ترقی حاصل کرلیتا ہے تو اس میں اس کے رجحان یعنی اس کی دلچسپی کا 85 فیصد سبب ہوتا ہے جبکہ اس کی ذہانت اور قابلیت کا سبب صرف 15 فیصد ہوتا ہے یعنی کتنی حیران کن بات ہے کہ تعلیم کا 100 فیصد بجٹ صرف اس کے حقائق اور تدریسی عمل پر خرچ کردیا جاتا ہے جو کہ زندگی کی کامیابی کے لیئے 15 فیصد ضروری ہے جبکہ 85 فیصد والے رجحان کی طرف ہمارا کوئی دھیان نہیں ہوتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
ایک شخص ہیلیم Helium گیس والے غبارے بیچ کر اپنی روزی روٹی کماتا تھا اس کے پاس ہرے نیلے پیلے ہر رنگ کے غبارے ہوتے تھے جب بھی وہ محسوس کرتا کہ آج کام میں۔ مندا ہے یعنی غبارے بک نہیں رہے تو وہ ایک غبارہ گیس سے بھرا ہوا ہوا میں چھوڑ دیتا اور خوشی سے بچوں کی طرح تالیاں بجانے لگتا اس کے اڑے ہوئے غبارے کو دیکھ کر وہاں اردگرد بچے دوڑے ہوئے آتے اور ان کے اندر غبارہ خریدنے کی خواہش انہیں خریدنے پر مجبور کرتی اور اس طرح اس کا مندا ختم ہوجاتا وہ دن بھر غبارے بیچتا اور جب بھی اسے محسوس ہوتا کہ مندا ہے تو وہ اسی طرح غبارا ہوا میں اڑا دیتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دن اس کو ایک بچے نے پوچھا کہ انکل آپ کے پاس کالے رنگ کا غبارا ہے ؟ تو اس نے کہا کہ ہاں ہے نا بیٹا تو بچے نے کہا کہ پھر وہ کیوں نہیں اڑاتے کیا وہ ہوا میں نہیں اڑتا ؟ تو اس نے کہا کہ بیٹا غبارے رنگ کی وجہ سے نہیں اڑتے بلکہ ان کے اندر موجود گیس کی وجہ سے اڑتے ہیں بلکل یہ ہی فارمولا ہم انسانوں کے ساتھ بھی ہے ہم کامیابی کے حصول کے لیئے یہاں وہاں نامعلوم چیز کی تلاش میں رہتے ہیں جبکہ ہمیں بلندیوں پر لیجانے والی اور کامیابی کی طرف پہنچانے والی چیز باہر نہیں بلکہ ہمارے اندر موجود ہے اور وہ ہے رجحان ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب غبارے والے کو مندا محسوس ہوتا تو وہ ہوا میں ایک غبارہ چھوڑ دیتا یہ اس کا اپنے کام میں کامیابی کی طرف ایک رجحان یعنی دلچسپی تھی اگر وہ مندے کو دیکھ کر ہمت ہار دیتا اور کام چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتا تو پھر اس کے ساتھ وہی ہوتا جو ایک ناکام انسان کے ساتھ ہوتا ہے ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم جیمز نے کہا تھا کہ نئی نسل میں یہ ایک نئی چیز کی دریافت ہے کہ وہ اپنے ذہنی رجحان کو تبدیل کرکے اپنی زندگیوں میں تبدیلی لا سکتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
رجحان یعنی دلچسپی ہمیں کامیابی کی طرف لیجانے والا ایک مظبوط اور مکمل عنصر ہے ہمیں اپنے اندر چھپے ہوئے خزانے کو باہر نکالنا ہوگا جو ہمیں کامیابی کی طرف لے جائے گا اور یہاں وہاں پریشان ہوکر خوار ہوکر کامیابی کی تلاش سے نکلنا ہوگا اب دیکھیں ایک کسان تھا جس کانام نعیم تھا وہ بہت قناعت پسند انسان تھا اس لیئے وہ خوش رہتا تھا اور وہ خوش اس لیئے رہتا تھا کہ وہ قناعت پسند تھا ایک دن اس کی ملاقات کسی دانا شخص سے ہوگئی اس نے کہا کہ تم ہیرے کی قدرو قیمت سے کتنا واقف ہو ؟ تو نعیم نے کہا کہ نہیں میں کچھ خاص نہیں جانتا تو اس نے کہا کہ اگر تمہارے پاس تمہارے انگوٹھے جتنا ہیرا ہو تو تم پورا شہر خرید سکتے ہو اور اگر تمہارے پاس مٹھی بھر ہیرا ہو تو تم پورا ملک خرید سکتے ہو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
وہ شخص یہ بات کرکے چلا گیا لیکن نعیم پریشان ہوگیا اس کے سامنے اپنا کام اسے بہت چھوٹا محسوس ہونے لگا رات بھر اسے نیند نہیں آئی کیونکہ وہ اب قناعت پسند نہ رہا اور کیونکہ وہ قناعت پسند نہیں رہا اس لیئے وہ نا خوش تھا صبح اٹھتے ہی اپنا کھیت دوسرے شخص کے ہاتھوں بیچ دیا اور گزر اوقات کی غرض سے کچھ رقم اپنی بیوی کو دی اور ہیروں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا وہ دنیا کے کئی ملکوں میں گیا کئی جگہوں پر خوار ہوا لیکن اسے ہیرے کہیں نہ ملے اسے گوہر مقصود کہیں ہاتھ نہ لگا اب اتنا گھومتے گھومتے جب ناکامی کا منہ دیکھا تو وہ ذہنی مریض بن گیا اور سوچنے لگا کہ میں کس منہ سے واپس جائوں اور جب ذہنی کیفیت کچھ زیادہ بگڑ گئی تو اپنی ناکامی کے سبب
دریا میں کود کر خودکشی کرلی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
اب دیکھئے قدرت کا کمال کہ جس شخص کو نعیم نے اپنا کھیت بیچا تھا وہ ایک دن کھیت میں ہل چلارہا تھا کہ اس کا ہل کسی دھات سے ٹکرایا اس نے اس جگہ کو جب زمین کھودی تو اس میں ایک دیگچہ نکلا جس میں چمکدار پتھر رکھے ہوئے تھے وہ شخص بھی ہیروں سے ناواقف تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ ان چمکدار پتھروں کو ہیرا کہتے ہیں اور یہ بڑے قیمتی ہوتے ہیں اس نے صرف ایک پتھر نکالا کہ گھر میں سجائے گا اور باقی اس نے وہ دیگچہ وہیں پر دباکر گاڑ دیا پھر وہ ایک ہیرا اس نے اپنے گھر میں سامنے ہی سجاکر رکھ دیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
وہ دانا شخص جس نے نعیم کو ہیروں کی قدرو قیمت کے بارے میں بتایا تھا اس کا گزر پھر اس طرف ہوا جب اس نے ہیرے کو سامنے لٹکتا ہوا دیکھا تو سمجھا کہ شاید نعیم واپس آگیا اتنے میں کھیت کا نیا مالک بھی آگیا تو دانا شخص نے پوچھا کہ کیا نعیم واپس آگیا ؟ تو اس نے کہا کہ نہیں لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہو ؟ تو اس نے ہیرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس کی وجہ سے تو اس شخص نے کہا کہ یہ پتھر ہے مجھے کھیت کے نیچے سے ملا اور بہت سے دوسرے بھی ہیں گویا وہ اس دانا شخص کو لے کر کھیت کی طرف گیا اور وہ دیگچہ اسے دکھایا تو اس دانا شخص کو اندازا ہوا کہ اصل میں یہ کھیت ہیروں کا کھیت ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
اس واقعہ سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات قسمت ہمارے پائوں کی نیچے ہوتی ہے لیکن ہم اس کی تلاش میں ناجانے کہاں کہاں مارے مارے پھرتے ہیں بس شرط یہ ہے کہ ہمارا رجحان درست ہو کیونکہ موقع زندگی میں ایک بار ہی ملتا ہے اگر وہ موقع ضائع ہو جائے تو پھر حشر نعیم جیسا ہوتا ہے کیونکہ ہمیشہ ندی کے دوسرے کنارے پر اگی ہوئی گھاس ہمیں زیادہ سبز دکھائی دیتی ہے اور جب ہم اس گھاس کو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف والے لوگ ہماری طرف والی گھاس کو زیادہ سبز سمجھ کر دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
ہمیں کامیابی حاصل کرنے کے لیئے اپنے اندر جھانکنا ہوگا اپنی ان صلاحیتوں کو باہر لانا ہوگا جن کو ہم نے اندر ہی اندر دباکر رکھا ہوا ہوتا ہے اور جب ہمیں محسوس ہو کہ وہ صلاحیت ہمیں کامیابی کی طرف لے جائے گی تو ہمیں اپنا رجحان یعنی دل چسپی اس کی طرف مرکوز کرنا ہوگی شاید ان چھپی ہوئی صلاحیتوں میں سے کوئی صلاحیت ہمیں بلندی پر لے جاکر کامیابی کا سہرا ہمارے گلے میں ڈال دے کامیابی کا راز ہمارے اردگرد ہی ہے ہمارے قریب ہی ہے بلکہ ہمارے اندر ہی ہے بس تلاش کریں اور اسے باہر نکالیں پھر اسے صحیح سمت ، صحیح جگہ اور صحیح طریقہ سے استعمال کریں پھر دیکھیں ناکامی کا لفظ آپ کی ڈکشنری سے اس طرح غائب ہوگا جیسے کبھی تھا ہی نہیں جناب شکیل اعظمی کے بڑے خوبصورت شعر پر میں اس تحریر کا اختتام کروں گا کہ
ہار ہو جاتی ہے جب مان لیا جاتا ہے
جیت تب ہوتی ہے جب ٹھان لیا جاتا ہے ۔
یوسف برکاتی