- Advertisement -

اشعار کی صحت کے متعلق چھٹا کالم

باذوق قارئین کے لیے ایک خاص کالم

کالموں میں لکھے جانے والے غلط اشعار کا تعاقب
اشعار کی صحت کے متعلق چھٹا کالم

17 ستمبر کو سعداللہ جان برق نے اپنے کالم کے آخر میں اِس شعر کا پہلا مصرع اتنے بُرے طریقے سے بحر سے نکال پھینکا ہے کہ دل مچھلی کی طرح تڑپ کر رہ گیا ہے۔
تجھ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا
کیا کہوں؟ اور کہنے کو کیا رہ گیا
معروف بھارتی گلوکار جگجیت سنگھ کی آواز میں یہ غزل یوٹیوب پر بھی موجود ہے۔اس شعر کا پہلا مصرع اس طرح ہے۔
آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا
سعداللہ جان برق نے ہی 18 ستمبر کے کالم میں اپنے مرشد غالب کے اس شعر کے پہلے مصرعے میں دو جگہ کھچڑی سی پکا دی ہے۔
ایماں مجھے روکے ہیں تو”کھینچے “ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
پہلے مصرعے میں لفظ” ایماں“ واحد ہے اس لیے غالب نے” ہیں“ کہ بجائے” ہے“ استعمال کیا ہے اور” تو“ کہ جگہ” جو“ ہے یعنی۔
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
20 ستمبر کو محترم اثر چوہان نے اپنے کالم” سیاست نامہ“ میں مرزا غالب کے اس شعر میں گڑبڑ کر دی ہے۔
ہوئے مر کے ہم جو رُسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کوئی مزار ہوتا
دوسرے مصرعے میں دو جگہ تحریف موجود ہے۔غالب نے لفظ” کہیں“ کی بجائے” کبھی“ اور” کوئی“ کی جگہ” کہیں“ لکھا ہے۔درست مصرع یوں ہوا۔
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
22 ستمبر کو رؤف طاہر نے اپنے کالم” جمہور نامہ“ کا عنوان اس شعر کے دوسرے مصرعے کو بنایا ہے۔
دیکھو یہ میرے خواب تھے، دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے سبھی حسابِ جاں برسرعام رکھ دیا
احمد فراز نے دوسرا مصرع قطعاً اس طرح نہیں کہا۔اُن کی کتاب” خوابِ گُل پریشاں ہے“ اور” کلیاتِ احمد فراز“ کے ساتھ ساتھ احمد فراز کی اپنی آواز میں یہ غزل یو ٹیوب پر سُنی جا سکتی ہے۔درست مصرع اس طرح ہے۔
میں نے تو سب حسابِ جاں بر سرِعام رکھ دیا
24 ستمبر کو عظیم نذیر نے اپنے کالم” ذرا سوچئے“ میں دو اشعار لکھنے میں غلطی کی ہے۔پہلا شعر حضرت علامہ محمد اقبالؒ کا یوں لکھا گیا ہے۔
وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی
میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ بے نوازی
دوسرے مصرعے میں” بے نوازی“ کی بجائے” نَے نوازی“ ہے۔دوسرا شعر رؤف امیر کا اس طرح کالم میں موجود ہے۔
بارش نہیں لاتی کسی افلاک سے خوشبو
خود جھوم کے اٹھتی ہے اسی خاک کی خوشبو
پہلے مصرعے میں” کسی افلاک“ کی ترکیب بڑی ہی عجیب ہے۔اس مصرعے میں” کسی“ کی جگہ” کبھی“ ہے اور ایک اَہم بات یہ کہ جب شعر کا قافیہ اور ردیف” افلاک سے خوشبو“ ہے تو دوسرے مصرعے میں” خاک کی خوشبو“ کی بجائے” خاک سے خوشبو“ ہونا چاہیے
25 ستمبر کو اوریا مقبول جان” حرفِ راز“ میں حضرت علامہ اقبالؒ کا یہ شعر لائے ہیں۔
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب کبھی آدم ہوا ہے خود شناس وخود نگر
اس شعر کے دوسرے مصرعے میں لفظ” کبھی“ کی جگہ” ذرا “ہے یعنی۔
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس وخود نگر
اثر چوہان صاحب نے 25 ستمبر کے کالم میں اس معروف شعر کا پہلا مصرع بدل دیا ہے۔
وحشت میں ہمیں سب کچھ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے
” کلیات ظریف لکھنوی“ جسے صفی لکھنوی نے ترتیب دیا ہے اس میں پہلا مصرع یوں ہے۔
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
نجم ولی خان نے 25 ستمبر کے” شہرِ یاراں“ کے آخر میں علامہ محمد اقبالؒ کا یہ شعر لکھا ہے۔
کہتے ہیں اونٹ ہے بھدا سا جانور
اچھی ہے گائے رکھتی ہے کیا نوکدار سینگ
بانگِ درا میں اس ظریفانہ کلام کا پہلا مصرع یوں موجود ہے۔
کہنے لگے کہ اونٹ ہے بھدّا سا جانور
26 ستمبر کے” سرراہے“ کے آخر میں یہ شعر لکھا گیا ہے۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
یہ شعر اسی انداز میں زبان زدِ عام ہے۔اگرچہ کسی” فن کار“ نے اِس مصرعے میں بھی کوئی سقم نہیں چھوڑا مگر درحقیقت اس شعر کا پہلا مصرع اس سے بالکل مختلف ہے۔یہ شعر وزیر علی صبا لکھنوی کا ہے۔اُن کی کتاب” غنچہ ء آرزو“ میں پہلا مصرع یوں موجود ہے۔
آپ ہی اپنے ذرا جوروستم کو دیکھیں
26 ستمبر کو عنبر شاہد کے کالم کے آخر میں یہ شعر نظروں سے گزرا۔
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
اس شعر کے خالق مرزا عظیم بیگ ہیں۔دراصل یہ مخمّس نظم کے پانچ مصرعوں میں سے دو مصرعے ہیں۔ان دو مصرعوں میں سے پہلا مصرع اسی غلط انداز میں مشہور ہو گیا ہے۔مولانا محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب” آبِ حیات“ میں یہ مصرع یوں لکھا ہے۔
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثلِ برق
27 ستمبر کے” سر راہے“ کے آخر میں غالب سے منسوب کر کے یہ شعر لکھا گیا ہے۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
مدیر” سرِ راہے“ سے بہ صد احترام گزارش ہے کہ یہ شعر غالب کا نہیں بلکہ علامہ محمد اقبالؒ کا ہے اور اُن کی کتاب” بانگِ درا“ کی نظم” شمع اورشاعر“ میں موجود ہے۔
ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے 28 ستمبر کو اپنے کالم” محراب“ میں شکیب جلالی کے اس مقطعے کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر رکھ دیا ہے۔
شکیب اپنے تعارف کے لیے اتنا کافی ہے
ہم اُس کو چھوڑ دیتے ہیں، جو رستہ عام ہو جائے
اب” کلیاتِ شکیب جلالی“ میں موجود درست شعر سے لطف اٹھائیے اور دیکھیے کہ ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے اس شعر کا کس طرح تیا پانچا کر دیا ہے؟
شکیب اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے
ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے اپنے اسی کالم میں علامہ محمد اقبالؒ کے اس شعر کے دوسرے مصرعے میں بھی خرابی پیدا کر دی ہے۔
نہیں فقر وسلطنت میں کوئی امتیاز ایسا
یہ نگاہ کی تیغ بازی وہ سپاہ کی تیغ بازی
بالِ جبریل میں اس شعر کا دوسرا مصرع یوں ہے۔
یہ سَپہ کی تیغ بازی وہ نِگہ کی تیغ بازی
ڈاکٹر اشفاق احمد ورک نے 29 ستمبر کو خواجہ حیدر علی آتش کے اس شعر کے پہلے مصرعے کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
بہت شور پہلو میں سنتے تھے دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ ء خوں نہ نکلا
جب کہ حیدر علی آتش نے پہلا مصرع یوں کہا ہے۔
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
اشعار سے بھرپور سعید آسی کا کالم 29 ستمبر کو پڑھا۔آں جناب نے ناصر کاظمی کا یہ شعر لکھا ہے۔
گزر رہا ہے عجب کش مکش میں دیدہ ودل
سحر کی آس تو ہے، زندگی کی آس نہیں
” دیدہ و دل“ دو چیزیں ہیں اس لیے ان کے ساتھ” گزر رہا ہے“ کی بجائے” گزر رہے ہیں“ ہونا چاہیے۔ناصر کاظمی کی کتاب” برگِ نَے“ میں مصرع اس طرح موجود ہے
گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل
سعید آسی نے یہ شعر” میر“ کی طرف منسوب کر دیا ہے۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چَین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
جب کہ یہ شعر ذوق کا ہے۔
یکم اکتوبر کو”کالم آرائی “ میں ایم ابراہیم خان” کسی نے خوب کہا ہے“ کہ کر لکھتے ہیں۔
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
پہلی گزارش تو یہ ہے کہ یہ” کسی“ نے خوب نہیں کہا بلکہ حکیم غلام مولا قلق نے کہا ہے اور اس طرح بالکل نہیں کہا جس طرح ایم ابراہیم خان نے لکھا ہے۔” دیونِ قلق“ اور” کلیات قلق“ مرتّبہ کلبِ علی خاں فائق میں یہ شعر اس طرح موجود ہے۔
جو آ کے نہ جائے پھر، بڑھاپا دیکھا
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
میم سین بٹ نے اپنے 3 اکتوبر کے کالم میں علامہ محمد اقبالؒ کے یہ اشعار اس طرح لکھے ہیں۔
ہر چند ہے بے قافلہ وراحلہ وزاد
کوہ وبیاباں سے حدی خوان کدھر جائے
اس راز کو فاش کر اے روح محمدؐ!
آیات الٰہی کا نگہبان کدھر جائے
علامہ محمد اقبالؒ کی کتاب ضربِ کلیم کی نظم” اے روحِ محمدؐ! “ کے ان اشعار کا دوسرا اور تیسرا مصرع غلط لکھا گیا ہے۔دوسرا مصرع اس طرح ہے۔
اس کوہ وبیاباں سے حُدی خوان کدھر جائے
تیسرا مصرع یوں ہے۔
اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمدؐ!

حیات عبداللہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
اویس خالد کا ایک اردو کالم