- Advertisement -

آتے ہی آتے تیرے یہ ناکام ہوچکا

میر تقی میر کی ایک غزل

آتے ہی آتے تیرے یہ ناکام ہوچکا
واں کام ہی رہا تجھے یاں کام ہوچکا

یا خط چلے ہی آتے تھے یا حرف ہی نہیں
شاید کہ سادگی کا وہ ہنگام ہوچکا

موسم گیا وہ ترک محبت کا ناصحا
میں اب تو خاص و عام میں بدنام ہوچکا

ناآشناے حرف تھا وہ شوخ جب تبھی
ہم سے تو ترک نامہ و پیغام ہوچکا

تڑپے ہے جب کہ سینے میں اچھلے ہے دو دو ہاتھ
گر دل یہی ہے میر تو آرام ہوچکا

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل