تخیل سے بھی ماورا دیکھ لیتا
کبھی میں بھی شہرِ سخا دیکھ لیتا
تصور میں اُجلا سراپا اُترتا
اگر آنکھ ہوتی ضیا دیکھ لیتا
میں بے باک ہوتا تو بڑھتا ہی جاتا
کہیں تو وہ دستِ عطا دیکھ لیتا
کشادہ بڑی تھی وہ راہِ صداقت
چمکتے ہوئے نقشِ پا دیکھ لیتا
یہ کون و مکاں ہیں اُسی کے مظاہر
کہ محبوبِ ارض و سما دیکھ لیتا
یہ تھا کاسۂ سر گریبانِ مفلس
وگرنہ میں حرفِ دعا دیکھ لیتا
زباں سے مقدس ہے ذکرِ بشارت
کوئی اُس کے در کا گدا دیکھ لیتا
جو دستِ ہنر سے تراشے تھے پیکر
انہیں توڑ دیتا ، خدا دیکھ لیتا
ذرا دور ہوتا جو شہرِ بتاں سے
میں ناصر زمانہ کشا دیکھ لیتا
ناصر ملک