گر ہے تو لمحہ لمحہ یہی اک ملال ہے
وہ ہم مزاج ہے نہ مرا ہم خیال ہے
وہ ہجر آشنا نہیں، سمجھے وہ کس طرح؟
جو سانس سانس میں مری کربِ وصال ہے
خوشبو کی تتلیاں تو ہیں اُڑنے کی منتظر
پر چار سُو بچھی ہوئی گردِ زوال ہے
اُس بوئے خوش جمال کا ہی سب کمال ہے
سانسوں سے میرا اب بھی جو رشتہ بحال ہے
خاموش آئینے ہی دکھاتا ہے کیوں مجھے؟
اے دل! وہ عکس بھی کبھی، جو بے مثال ہے
پرچھائیوں کو میری ہی جو کاٹتا رہا
کیوں منتظر اُسی کی یہ راہِ وصال ہے؟
اک عمر سے میں رو رہی تھی اپنے وسوسے
پھر بھی نہ جانے کیوں مجھے رنجِ مآل ہے؟
ناہید ورک