چراغِ شب جلا کہیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
ایک اردو غزل از ناصر ملک
چراغِ شب جلا کہیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
سحر نے ڈھونڈ لی زمیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
وہ ننھی ننھی تتلیاں ادائے گل سے روٹھ کر
شکاریوں سے جا ملیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
اے بخت کی سیاہیو ! تمھارے دل میں بھی ہوا
ستارہ کوئی جاگزیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
سراجِ رہ گزر کی پھر اکھڑ رہی ہے سانس بھی
کھلی ہے زُلفِ مہ جبیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
ہزار خواہشوں کے درمیاں سخن طراز کو
متاعِ دل پہ ہے یقیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
بجھے بجھے سے دیس میں لہو کے کھیل پر کوئی
اٹھی صدائے نکتہ چیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
خیالِ خوفِ قریۂ جنوں کی آزمائشیں
غمِ جہاں پہ کھل گئیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
شباہتیں غبارِ دل سمیٹنے کے شوق میں
کسی کے ساتھ چل سکیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
لٹی لٹی شبِ وصال پوچھتی ہے چاند سے
تھکا ہے مارِ آستیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
ناصر ملک