رخت جاں باندھنے سے پہلے کچھ
بے نشاں، سرمئی مناظر نے
ڈبڈبائی اُداس آنکھوں سے
آخری بار مڑ کے دیکھا ہے
شام کی سرخ رُو حسیں دلہن
کاسنی رات کی پیالی میں
گھولتی جا رہی ہے رنگِ فراق
چل پڑے سست رو، تھکے ماندے
نیم خوابیدہ بادلوں کے مزار
اُن کے سائے میں اک دلِ ناسُود
لمبی، ویراں، کڑی مسافت سے
آرزو کی شکستگی سے چُور
ڈوب جائیں گے یونہی کچھ پل میں
پھر سے اِک دن کی روشنی کے سراغ
بادلوں کے سیہ مزاروں پر
ٹمٹمائیں گے ننھے ننھے چراغ
اور ہر بار کی طرح پھر سے
وقت کے تیرہ بخت سینے میں
گھُٹ کے رہ جائے گی صدائے نجات
راہِ آشوب سے تنِ خستہ
چاہ کر بھی کبھی نہ لوٹے گا
گلناز کوثر