آپ کا سلاماردو نظمشعر و شاعریگلناز کوثر

راہِ آشوب

گلناز کوثر کی ایک اردو نظم

رخت جاں باندھنے سے پہلے کچھ

بے نشاں، سرمئی مناظر نے

ڈبڈبائی اُداس آنکھوں سے

آخری بار مڑ کے دیکھا ہے

شام کی سرخ رُو حسیں دلہن

کاسنی رات کی پیالی میں

گھولتی جا رہی ہے رنگِ فراق

چل پڑے سست رو، تھکے ماندے

نیم خوابیدہ بادلوں کے مزار

اُن کے سائے میں اک دلِ ناسُود

لمبی، ویراں، کڑی مسافت سے

آرزو کی شکستگی سے چُور

ڈوب جائیں گے یونہی کچھ پل میں

پھر سے اِک دن کی روشنی کے سراغ

بادلوں کے سیہ مزاروں پر

ٹمٹمائیں گے ننھے ننھے چراغ

اور ہر بار کی طرح پھر سے

وقت کے تیرہ بخت سینے میں

گھُٹ کے رہ جائے گی صدائے نجات

راہِ آشوب سے تنِ خستہ

چاہ کر بھی کبھی نہ لوٹے گا

گلناز کوثر

گلناز کوثر

اردو نظم میں ایک اور نام گلناز کوثر کا بھی ہے جنہوں نے نظم کے ذریعے فطرت اور انسان کے باطن کو ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ گلناز کوثر کا تعلق لاہور سے ہے تاہم پچھلے کچھ برس سے وہ برطانیہ میں مقیم ہیں، انہوں نے اردو اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ ایل ایل بی کی تعلیم بھی حاصل کی، البتہ وکیل کے طور پر پریکٹس کبھی نہیں کی۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے ریسرچ اینڈ پبلیکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ رہیں، علاوہ ازیں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے عالمی ادب بھی پڑھایا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ دو ہزار بارہ میں ’’خواب کی ہتھیلی پر‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button