تابوت پر بھی میرے نہ آیا وہ بے نقاب
میں اٹھ گیا ولے نہ اٹھا بیچ سے حجاب
اس آفتاب حسن کے جلوے کی کس کو تاب
آنکھیں ادھر کیے سے بھر آتا ہے ووہیں آب
اس عمر برق جلوہ کی فرصت بہت ہے کم
جو کام پیش آوے تجھے اس میں ہو شتاب
غفلت سے ہے غرور تجھے ورنہ ہے بھی کچھ
یاں وہ سماں ہے جیسے کہ دیکھے ہے کوئی خواب
اس موج خیز دہر نے کس کے اٹھائے ناز
کج بھی ہوا نہ خوب کلہ گوشۂ حباب
یہ بستیاں اجڑ کے کہیں بستیاں بھی ہیں
دل ہو گیا خراب جہاں پھر رہا خراب
بیتابیاں بھری ہیں مگر کوٹ کوٹ کر
خرقے میں جیسے برق ہمارے ہے اضطراب
ٹک دل کے نسخے ہی کو کیا کر مطالعہ
اس درس گہ میں حرف ہمارا ہے اک کتاب
مجنوں نے ریگ بادیہ سے دل کے غم گنے
ہم کیا کریں کہ غم ہیں ہمارے تو بے حساب
کاش اس کے روبرو نہ کریں مجھ کو حشر میں
کتنے مرے سوال ہیں جن کا نہیں جواب
شاید کہ ہم کو بوسہ بہ پیغام دست دے
پھرتا ہے بیچ میں تو بہت ساغر شراب
ہے ان بھوئوں میں خال کا نقطہ دلیل فہم
کی ہے سمجھ کے بیت کسو نے یہ انتخاب
گذرے ہے میر لوٹتے دن رات آگ میں
ہے سوز دل سے زندگی اپنی ہمیں عذاب
میر تقی میر