وبا ۲۰۲۰
ہراس اک گلی سے دوسری گلی کو چل پڑا
سیاہ رنگ خوف تارکول کی طرح
زمیں کی ہر سڑک پہ پھر گیا
جہاں صدا کے پنچھیوں کی بے خطر اڑان تھی
وہاں پہ اب خموشیوں کے جال ہیں
دلوں سے اٹھ کے خوف آنکھ آنکھ سے ابل پڑا
ہوا میں بے یقینیوں کی باس ہے
نگر نگر ہراس ہے
بدن بدن سے دور ، ہاتھ ہاتھ سے ڈرا ہوا
بشر کھلی فضا سے خوف کھا گیا
ہوا سے خوف کھا گیا
محبتوں میں قرب کی ادا سے خوف کھا گیا !
بہار اپنی طشتری میں گل لیے کھڑی رہی
پرند ڈھونڈتے رہے
سگان کوچہ گرد ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں
آدمی کدھر گیا ؟
اور آدمی نے لڑکھڑاتی سانس سے
کتاب جاں کا آخری ورق لکھا ۔۔۔
وصال، قرب، دوستی، بہار، پیار سچ سہی
فنا کے خوف اور
بقا کی بھوک سے بڑا کوئی بھی سچ نہیں!
شہزاد نیّرؔ