- Advertisement -

بارِمحراب نہ سجدے سے پتا چلتا ہے

صابر رضوی کی ایک اردو غزل

بارِمحراب نہ سجدے سے پتا چلتا ہے
کچھ عبادات کا کندھے سے پتا چلتا ہے

خامشی اس لیے خاموش نہیں رہ پاتی
گھر اکیلا ہو تو تالے سے پتا چلتا ہے

میرا بیٹا ہی مرا مقبرہ بنوائے گا
بارور پیڑ کا جھکنے سے پتا چلتا ہے

دیدہ ور دیکھ مری آنکھ ذرا غور سے دیکھ
چشمۂ کوہ کا دھارے سے پتا چلتا ہے

میں اسے اپنی محبت کی دلیلیں کیا دوں
آگ کیسی ہے یہ شعلے سے پتا چلتا ہے

شہر میں اس کی سخاوت کے بڑے چرچے ہیں
جس کو حاجت کا بھی کاسے سے پتا چلتا ہے

کیوں سمندر کے مقابل میں اسے رکھتے ہو
وسعتِ چشم کا سپنے سے پتا چلتا ہے

دھان کاٹیں تو پرالی کو کہاں لے جائیں
ہم سے گئوں واروں کا لہجے سے پتا چلتا ہے

میں ترے ہجر سے پہنچا ہوں تری قدر تلک
دن کی وقعت کا اندھیرے سے پتا چلتا ہے

بعض سچائیاں ہوتی ہیں ہمیشہ جھوٹی
بعض دھوکوں کا بھی دھوکے سے پتا چلتا ہے

ایک ہی دن میں کوئی پھل بھی نہیں پک سکتا
شہر کیسا ہے یہ بسنے سے پتا چلتا ہے

علی صابر رضوی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
صابر رضوی کی ایک اردو غزل