لباسِ شب سا بدن، خواب کی تصویر تو،
حسن کے افسانے کی دلکش تعبیر تو۔
چشمِ نازک میں کوئی رازِ گم کردہ خواب،
یا کہ کسی عشق کی گمشدہ تحریر تو؟
تجھ پہ ٹھہرتے ہیں وقت کے بھی قدم،
تجھ سے چمکے یہ جہاں، مثلِ تنویر تو۔
گھٹا زلفوں کی اور چہرہ ماہتاب،
جیسے خاموشیوں کی گونج، وہ تقدیر تو۔
زندگی کے راز جو ہم نہ سمجھے کبھی،
ان کہانیوں کا شاید اک تعزیر تو۔
شاکرہ نندنی