آپ کا سلامابصار فاطمہاردو افسانےاردو تحاریر

غلطی کا اعتراف

افسانے کی حقیقی لڑکی از ابصار فاطمہ سے اقتباس

بسمہ کافی تھک گئی تھی مگر منہ ہاتھ دھو کر کھانا کھانے اور لیٹنے کے دوران مسلسل اس کا دماغ سوچوں سے گھرا رہا۔
بختاور نے اس کے لیے کہا کہ اس کی شخصیت مثبت زیادہ ہے۔ جبکہ اسے آج کل اپنا آپ بالکل منفی لگ رہا تھا۔ وہ اپنی شخصیت کے برعکس گھر والوں سے لڑتی جھگڑتی تھی۔ جو کما رہی تھی صرف خود پہ خرچ کر رہی تھی۔ گھر میں کوئی مسئلہ ہو کوئی بیمار ہو وہ بالکل بے حس بن جاتی تھی۔ اپنے طور پہ وہ انہیں احساس دلانا چاہ رہی تھی کہ انہوں نے اس کے ساتھ جو کیا غلط کیا۔ مگر آج وہ دوبارہ اپنے رویے کا مشاہدہ کر رہی تھی۔ بڑے بھیا صرف اس کی وجہ سے الگ رہ رہے تھے۔ گھر کی ذمہ داریوں سے وہ ہمیشہ سے بھاگتے تھے کیونکہ انہیں ہمیشہ ہی بڑے ہونے کا طعنہ ملا۔ ان سے بچپن میں بھی ذمہ داری اور بردباری کی توقع رکھی جاتی تھی اور آہستہ آہستہ انہوں نے یہ آسان طریقہ سیکھ لیا کہ اپنے بڑے ہونے کا فائدہ کس طرح اٹھایا جاسکتا ہے۔ بسمہ کو فورا خیال آیا یعنی بھیا نے بھی سسٹم کو اپنے فائدے کی حد تک استعمال کیا
پھر اسے خیال آیا کہ دادی کو دیکھا جائے امی کو ابو کو اسد کو یا اسماء اور بشرہ آپی کو سب نے یہی کیا۔ جب خود سے طاقتور کی بات آتی ہے تو وہ سب ظلم سہتے ہیں جب خود سے کوئی کمزور ملتا ہے تو اس کے لیے وہی رویہ اپناتے ہیں جو سہہ چکے ہوتے ہیں۔ وہ بھی انجانے میں یہی کر رہی تھی۔ اب ابو ریٹائرڈ تھے امی کی تو ساری حیثیت ہی ابو کی وجہ سے تھی۔ جبکہ اب وہ اپنی ضرورتوں کے لیے کسی کی محتاج نہیں تھی تو وہ کوئی کام کرتے ہوئے کسی سے پوچھنا یا اجازت لینا ضروری نہیں سمجھتی تھی۔ اب وہ امی اور دادی سے بدتمیزی کے حد تک بحث بھی کرتی تھی۔ بسمہ اندر تک کانپ گئی۔ اس نے سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ جو خود کو ابھی تک مظلوم اور کمزور سمجھ رہی تھی وہ خود بھی آہستہ آہستہ ظالموں کے طبقے کا حصہ بن رہی تھی۔ وہ اپنی ذرا سی طاقت کو خود سے کمزوروں پہ استعمال کر رہی تھی۔ یعنی وہ اگر مرد ہوتی تو یہی کرتی جو باسط نے کیا۔ یا جب وہ ساس بنے گی تو یہی سب کرے گی جو باقی ساسیں کرتی ہیں۔ یا شاید وہ بھی نازیہ بن جائے۔ بسمہ ایک دم اٹھ کے بیٹھ گئی۔ یہ خیال ہی اتنا پریشان کن تھا کہ لوگوں کے جس رویئے سے وہ تکلیف میں مبتلا ہوئی تھی انجانے میں وہ وہی سب کر رہے تھی اور شاید آگے بھی کرتی رہتی اگر آج بختاور سے یہ سب بات نا ہوئی ہوتی۔
اسے کسی طرح چین نہیں آرہا تھا۔ وہ تو ہمدرد اور فرمانبردار بیٹی ہے۔ وہ تو خود کو ایک اچھا انسان سمجھتی ہےکیا اسے یہ سب زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی ناانصافیوں کا بدلہ اب لے جب کہ وہ اس سے کمزور ہوگئے ہیں۔ کیا یہ اسے زیب دیتا ہے کہ بھائی کے نامناسب رویے کا بدلہ وہ بھابھی سے لے جس بچاری کا اس سب سے کوئی تعلق ہی نہیں؟
اسے کچھ سمجھ نہیں آیا تو اٹھ کر کچن میں آگئی۔ امی رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھیں۔ جب سے کمر اور جوڑوں میں درد شروع ہوا تھا وہ اب آہستہ آہستہ کام نپٹانے کی کوشش کرتی تھیں اسی لیے جلدی ہی کام شروع کردیتیں۔ بس یہ ہوتا کہ اس کی وجہ سے ان کا سارا ہی دن کام میں نکل جاتا تھا۔ بسمہ نے خاموشی سے دوسری چھری اٹھائی اور ساتھ سبزی کاٹنی شروع کردی۔ امی نے کوئی خاص توجہ نہیں دی کیونکہ اتنا تھوڑا بہت کام تو وہ کروا ہی دیتی تھی جب موڈ ہوتا تھا۔ سبزی کٹ گئی تو بسمہ خود ہی پتیلی نکالنے لگی۔
"آپ جائیں میں پکا دیتی ہوں۔” کہنے کو بہت چھوٹا سا عام سے جملہ تھا مگر اس جملے میں اس کی غلطی کا اعتراف پوشیدہ تھا۔ شاید اسی لیے اسے یہ کہنا بھی ایسے ہی مشکل لگا جیسے کسی بچے سے اپنی غلطی کے لیے سوری بولنا۔ چھوٹا سا لفظ ہوتا ہے مگر اس کے پیچھے ہماری بہت بڑی سے انا کھڑی ہوتی ہے۔ امی کی نظروں میں حیرت جھلکی مگر وہ خاموشی سے ہٹ گئیں۔ بسمہ نے سبزی بھی بنائی ساتھ ہی اسد کو کال کرکے چکن لانے کا بھی کہہ دیا۔ رات کے کھانے کے لیے اس نے کافی انتظام کرلیا۔ شام میں بھابھی اور بھائی نیچے آئے تو اس نے دونوں کو رات کے کھانے پہ روک لیا۔ یہ سب ہر کسی کے لیے ہی کچھ حیران کن تھا مگر سب اس کے بدلتے رویے دیکھتے رہتے تھے اس لیے اس تبدیلی کو بھی وقتی ہی سمجھ رہے تھے۔
اگلے دن بسمہ اپنے وقت پہ پہلے آفس اٹینڈنس لگا کر دارلامان پہنچی اور معمول کے مطابق کام بھی کیا۔ پورا ہی ہفتہ یونہی گزر گیا اور اس کی توقع کے برعکس اس کی ملاقات اسلم سے نہیں ہوئی۔ صبح کالج اور دوپہر میں جاب کی وجہ سے وہ سو فیصد کام تو نہیں کرسکتی تھی اس لیے اپنی موجودگی میں کوشش کرتی کہ صفائی کردے اور کھانا پکا دے۔ امی اس کے آ نے تک سبزیاں وغیرہ کاٹ لیتی تھیں ۔ اپنے حساب سے وہ خود ہی پکانے کی تیاری کرتی تھیں مگر بسمہ آکر کچھ کہے بغیر ہی کٹی سبزیاں چڑھا دیتی اور ساتھ ہی اگر برتن رکھے ہوتے تو دھو دیتی۔ روز ہی یا تو بھیا بھابھی کو کھانے پہ روک لیتی یا پھر سالن اوپر دے آتی۔ بسمہ گھر کے مسائل کو بھی مناسب طریقے سے مستقل حل کرنے کا سوچ رہی تھی۔ اگر گھر کے یہ حالات رہتے تو اس کی تنخواہ اور ابو کی پینشن میں اخراجات پورے نہیں ہوسکتے تھے۔ دوسری بات گھر کا ماحول یہی رہتا تو اسد کی جاب اور شادی کے بعد وہ بھی ذمہ داری سے بری الزمہ ہوجاتا کیونکہ وہ ابھی سے بہت لاپرواہ تھا۔ پھر جب بڑا بھائی اور اس کی بیوی کوئی ذمہ داری نا نبھا رہے ہوں تو چھوٹا بھائی کیوں نبھاتا۔ اس نے بہت سوچ کے بھیا سے بات کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ ایک دن رات کا کھانا کھا کر اس نے بھیا سے کہہ دیا اسے کچھ اہم بات کرنی ہے۔ وہیں ہال میں امی اور ابو کو بھی روک لیا۔
"بھیا مجھے اندازہ ہے کہ گھر کا ماحول بہت کشیدہ ہے اور اس میں سب سے زیادہ ہاتھ میرا ہے۔ مگر ایک بات جو آپ کو سوچنی چاہیے تھی اور آپ نے نہیں سوچی کہ میرے غلط رویے کاامی اور ابو سے کیا تعلق کہ آپ نے ان سے بھی ہر طریقے کا تعلق محدود کرلیا۔”
” ان کا تعلق کیسے نہیں ہے تمہیں اتنا سر پہ چڑھانے کی غلطی انہی کی ہے۔ لڑکی ہوکر سارا دن باہر گھومتی ہو۔ کوئی کچھ بولے تو ٹکا سا جواب ہاتھ پہ رکھ دیتی ہو۔ اور یہ والدین ہو کر تمہیں ٹوکتے تک نہیں۔”
” اچھا تو مطلب اس وجہ سے آپ ان کی کوئی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے۔ آپ کی ساری اخلاقی ذمہ داریاں ختم؟ بھیا آپ بھی وہی غلطی کر رہے ہیں جو کچھ دن پہلے تک میں کر رہی تھی۔ مگر شاید آپ کی عادت اب پختہ ہوگئی ہو۔”
” کیسی عادت کونسی غلطی؟”
"اپنے رویے کا ذمہ دار امی ابو کو ٹہرانا۔ آپ بھائی ہیں میرے آپ کو اچھی طرح سے پتا ہے کہ میں ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ اور مجھے بھی یاد ہے کہ آپ ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ جب تک آپ اسکول میں تھے۔ مجھے لگتا تھا میرے بھیا جیسا بھائی کسی کا ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ مجھے گود میں لے کر گھمانے جاتے تھے۔ اپنا جیب خرچ ہم سب چھوٹے بہن بھائیوں پہ خرچ کردیتے تھے۔”
"اور اس کے باوجود یہ سننے کو ملتا تھا کہ میں غیر ذمہ دار ہوں مجھے بہن بھائیوں کی ماں باپ کی پرواہ نہیں یہ سوچے بغیر کہ میں خود ساتویں آٹھویں کا بچہ تھا۔”
بھیا بیچ میں بول پڑے ان کی مخاطب بسمہ تھی مگر نظریں امی اور ابو پہ تھیں۔ جن میں سالوں کی چھپی شکایتیں امنڈ رہی تھیں۔
"ٹھیک ہے مان لیا کہ ان کا رویہ آپ سے غلط تھا۔ مگر کب تک آپ اپنے رویے سے ان کے رویے کا بدلہ لیں گے؟ کب تک بھیا؟ آپ کو ہی سب سے زیادہ اہمیت بھی ملی۔ آپ کا کہا حرف آخر ہوتا تھا گھر میں۔ آپ کی موجودگی میں کوئی اونچی آواز میں بھی نہیں بولتا تھا۔”
” مجھے نہیں میری جاب کو میری تنخواہ کو اہمیت ملی تھی یہ۔ آج میں کچھ کمانا چھوڑ دوں کنگال ہوجاوں کیا پتا یہ مجھے بیٹا ماننے سے ہی انکار کردیں۔”
امی ابو نے تڑپ کے نفی میں سر ہلایا۔ ان کے چہرے پہ واضح کرب کے آثار تھے۔
"یہ ٹھیک ہے کہ تمہاری جاب کے بعد تمہیں ہم نے زیادہ اہمیت دی مگر اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ تم پیسا کما کر ہمیں دیتے ہو بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمیں تم پہ اعتماد ہوگیا تھا کہ تم اتنے ذمہ دار ہوگئے ہو جتنا ہم تمہیں بنانا چاہتے تھے۔”
"ابو واقعی کیا بھیا صرف کمانے سے ذمہ دار ہوگئے تھے؟”
بسمہ نا چاہتے ہوئے بھی سوال کر گئی۔ مگر اس کے جواب میں اسے امی ابو کی گہری خاموشی ملی۔
"بھیا آپ ہوں یا میں ہم نے اپنے حساب سے خود سے ہونے والی ناانصافیوں کا بدلہ لے لیا۔ آپ کو خود بھی اندازہ ہے جیسا گھر کا ماحول ہے ایسے میں کوئی کھل کے خوش نہیں ہوسکتا۔ گھر پہ ہر وقت تناو کی کیفیت رہتی ہے۔ کیا بہتر نہیں ہے کہ ہم گھر کا ماحول مل کر بہتر بنا لیں۔ آپ کو زیادہ اعتراض میرے نامناسب رویے پہ ہے نا۔ اس کی میں معذرت کرتی ہوں۔ مگر امی ابو کی کچھ ذمہ داری آپ کی بھی ہے۔”
” یہ کہو نا کہ تم سے گھر کے خرچے نہیں سنبھل رہے۔”
” بھیا 15 ہزار میں آج کل کونسا گھر چلتا ہے؟”
"کیوں ابو کی پینشن بھی تو ہے۔”
"اگر پینشن ساری ابھی استعمال ہوتی رہے گی تو اگر کبھی بیماری وغیرہ میں ضرورت پڑی تو پیسے کہاں سے آئیں گے۔ آپ کا رویہ یہی رہا تو کیا ہم یہ امید لگا سکتے ہیں کہ آپ تب کوئی خرچہ کریں گے؟”
"کیوں نہیں کروں گا ماں باپ ہیں میرے”
"وہ تو ابھی بھی ہیں یا جب بیمار پڑیں گے صرف تب ماں باپ ہونگے؟ اگر آپ بیٹے ہونے کا ثبوت دینا چاہتے ہیں تو ابھی دیں۔ جن نا انصافیوں کا بدلہ آپ لے رہے ہیں وہ آپ نے آج صاف الفاظ میں جتا دی ہیں۔ مزید اس کا بدلہ لینے کی کوئی منطقی وجہ نہیں بنتی جبکہ آپ یا یہ بلکہ ہم میں سے کوئی بھی کچھ بھی کرلے ہم اپنا ماضی نہیں بدل سکتے۔ صرف آنے والے وقت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔”
بھیا کے چہرے پہ گہری سوچ کے آثار تھے۔
” میں کل تمہیں فائنل بتاتا ہوں۔ میں اور فوزیہ آپس میں مشورہ کرلیں تاکہ دیکھ لیں کتنا بجٹ ہے اور اس میں سے کچھ نکل سکتا ہے یا نہیں۔”
"ٹھیک ہے آرام سے سوچیں اتنا عرصہ گزر گیا کچھ دن اور سہی۔”
بھیا اور بھابھی اٹھ کر چلے گئے تو امی فورا بولیں
"تمہیں کیا ضرورت تھی اس سے یہ بات کرنے کی وہ گھر چھوڑ کے چلا گیا تو؟ کم از کم شکل تو دیکھنے کو ملتی ہے روز اسکی۔”
"گھر میں تو اسماء آپی اور بشرہ آپی بھی نہیں رہتیں امی۔ ان کی شکل بھی آپ کو ہفتوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔”
"ان کی بات الگ ہے وہ بیٹیاں ہیں انہیں تو اپنے گھر کا ہونا ہی ہوتا ہے۔ بیٹا تو بڑھاپے کا سہارا ہوتا ہے۔”
"وہی تو بنانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ ابھی تو نہیں ہیں وہ آپ کا سہارا۔ اور اگر گھر چھوڑ کے جاتے ہیں تو اچھی بات ہے اوپر والا پورشن اچھے خاصے کرایے میں جاسکتا ہے۔ ویسے بھی میرا ارادہ یہی ہے کہ اگر انہوں نے خرچے کے پیسے دینے پہ رضامندی نہیں دی تو ان کے سامنے یہی دو شرائط رکھوں گی کہ یا تو اوپر والے پورشن کا کرایہ دیں کیونکہ گھر ابو کی ملکیت ہے یا پھر گھر خالی کر دیں۔”
” پاگل ہوگئی ہو کیا۔ سگے بیٹے سے کوئی کرایہ لیتا ہے کیا؟”
"سگا بیٹا اپنی ذمہ داریوں سے ایسے بھاگتا ہے کیا؟ امی آپ سوچ لیں گھر آپ لوگوں کا ہے بیٹی ہونے کی حیثیت سے آپ نے پہلے ہی کبھی ہمیں اس گھر کو اپنا نہیں سمجھنے دیا۔ تو میرے لیے بالکل فرق نہیں پڑے گا کہ میں یہاں رہوں یا کہیں اور مگر بھیا کا یہی چلن رہا تو آپ لوگوں کو ضرور فرق پڑے گا۔ آپ تین بوڑھے ایک دوسرے کا بوجھ کیسے اٹھائیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اسد سے بھی آپ نے یہی رویہ رکھا ہے ابھی تک، اسے کسی ذمہ داری کا احساس نہیں دلایا گیا تھا اب جب سے آبو ریٹائر ہوئے ہیں تو آپ لوگوں کو فکر ہوگئی ہے کہ وہ بہت لاپرواہ ہے۔ اسے جب ذمہ داری سکھائی ہی نہیں تو خود بخود کیسے آئے گی۔ آپ لوگ ایک اولاد بلکہ میں خود کو بھی شامل کروں تو دو اولادوں کے رویے بھگت چکے ہیں اپنے نامناسب رویے کی وجہ سے۔ ابھی بھی وقت ہے کم از کم اسد کو سپورٹ کریں تاکہ وہ واقعی آپ لوگوں کا سہارا بن سکے۔اسے وقت دیں تاکہ وہ اپنی غلط عادتوں پہ اور لاپرواہی پہ قابو پاسکے اس کے بعد اس پہ ذمہ داری ڈالیں۔”
"بیٹا تمہیں پتا ہے اب ہمارے پاس اس پہ اڑانے کے لیے پیسا ہے ہی نہیں۔ جب کہ وہ ہر ہفتے ہزاروں ایسے مانگتا ہے جیسے آسمان سے برس رہیں ہوں جتائیں نہیں تو اور کیا کریں؟” اب کی بار ابو بولے ان کے لہجے میں شکستگی تھی
"ابو اسے یہ عادت بھی آپ لوگوں نے ہی ڈالی ہے۔ میٹرک کا اسٹوڈنٹ صرف دیکھنے میں بڑا لگتا ہے ذہنی طور پہ بچہ ہی ہوتا ہے اسے بڑوں کی سپورٹ چاہیے ہوتی ہے۔ نرمی سے آرام سے سمجھائیں۔ بلکہ آپ لوگ چاہیں تو میں سمجھاوں مگر پلیز یہ انتہائی رویے ختم کریں کہ کسی کو اتنی ڈھیل دیں کہ وہ کچھ بھی غلط کرے تو اسے کچھ نہیں کہنا اور کسی پہ اتنی سختی کہ جو غلطی اس کی نا بھی ہو اس پہ بھی اسے ہی قصوروار ٹہرایا جائے۔”
"اب یہ دن بھی دیکھنا ہی تھا کہ اولاد ہمیں سمجھائے گی کہ ہم غلط ہیں، کرو بھئ جو دل میں آئے کرو ماں باپ تو اب ناکارہ پرزہ ہیں ہماری کوئی کیوں سنے گا۔” ابو جھنجھلا کے اٹھ کر کمرے میں چلے گئے۔
بسمہ ساری بات چیت سے کافی مایوس ہوگئی تھی مگر اگلے دن ایک خوش آئند بات یہ ہوئی کہ صبح آفس جاتے ہوئے بھیا نے اسے بتایا کہ اب نئے مہینے سے وہ باقاعدہ زیادہ پیسے گھر کے خرچ کے لیے دیا کریں گے۔ بسمہ نے شکر ادا کیا کہ مزید کسی بدمزگی سے پہلے ہی معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹ گیا۔ اب دوسرا ٹاسک تھا اسد سے بات کر کے اسے سمجھانا اور اسے ذمہ داری کا احساس دلانا۔
انہی سوچوں میں مگن وہ انسٹیٹیوٹ بھی ہوکر آگئی اور دارلامان جانے کے لیے وین میں بیٹھی تو بھی اس کے دماغ میں یہی سب چل رہا تھا۔ باقی چاروں ٹیچرز معمول کے مطابق ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں سب کو اس کی خاموشی محسوس ہوگئی۔
” تم کیوں آج سہیل بھائی سے خاموشی میں مقابلہ کر رہی ہو۔ شرط باندھی ہے کوئی تو ہمیں بھی بتاو جو جیتے گا ہمیں ٹریٹ کھلائے گا۔”
"ارے یار یہ تم لوگ ہر بات میں اس بچارے کو کیوں گھسیٹ لیتی ہو۔ ضروری نہیں کہ ہر مذاق میں اسے بھی شامل کیا جائے۔ اور تمہیں پتا ہے کہ مجھے بالکل پسند نہیں کہ کسی بھی مرد کے ساتھ میرا تذکرہ کیا جائے” بسمہ کو ویسے ہی ان کا سہیل کا ہر بات میں مذاق اڑانا اچھا نہیں لگتا تھا ایک تو اسے آپس کی باتوں میں بلا وجہ مردوں کو زیر بحث لانا بہت برا لگتا تھا وہ بھی کسی ایسے مرد کو جو خود سن بھی رہا ہو۔
"یہ مرد کہاں ہے یہ تو ڈرائیور ہے۔ ویسے بھی مرد تو ایسا ہوتا ہے جسے دیکھ کر ہی طاقت اور مضبوطی کا احساس ہو۔ ڈر لگے۔ جس کے لہجے میں غصہ ہو غرور ہو۔” ایک ٹیچر اپنا آئیڈیل مرد بتانے لگی
"محترمہ آپ جسے مرد کی خصوصیات کہہ رہی ہیں وہ اچھا مرد نہیں ظالم مرد ہوتا ہے۔ جو عورت کی عزت نا کرسکے ایسے مرد کی مردانگی کا کیا فائدہ۔ سہیل تم لوگوں سے عزت سے بات کرتا ہے تو تم لوگ اس کی بے عزتی کرتی ہو اور خواب ہیں ایسے مرد کے جو تم پہ غصہ کرے اور غرور جھاڑے۔”
"ہاں تو اس کا کام ہے، عزت سے بات نہیں کرے گا تو ہم نکلوا دیں گے اسے۔ اس کی اوقات ہے کہ ہم سے غصے سے بات کرسکے۔ ڈرائیور ہے وہ۔ اپنی اوقات میں رہے تو بہتر ہے۔ ایسے لوگوں کو ذرا عزت دے دو تو سر پہ چڑھ جاتے ہیں۔” ایک اور ٹیچر بولی
"مس آپ کی باقی باتیں درست ہیں میں ڈرائیور ہوں میری کوئی اوقات نہیں مگر آپ مجھے نوکری سے نہیں نکلوا سکتیں۔” پہلی بار سہیل نے ان کی بات کاٹ کر اپنے حق میں کچھ بولا تھا۔ آواز دھیمی ہی تھی اور لہجہ بھی مودب۔
"یہ تو ابھی پتا چل جائے گا۔ چلو ذرا آفس میڈم بختاور کو بتاتی ہوں تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے ایسے بات کرنے کی۔ میرے بھائی میڈم بختاور کے بھائی کے دوست ہیں۔ دیکھنا کیسے بات مانتی ہیں میری وہ۔” وہ ٹیچر تلملا گئی
آفس پہنچتے ہی وہ ٹیچر سب سے پہلے نکل کر بختاور کے آفس میں گھس گئی۔ سب سے آخر میں بسمہ اتری۔
"سہیل آپ نے اچھا کیا انہیں جواب دے کر۔ میڈم بختاور سے بھی میں نے یہی سیکھا ہے آپ جب تک چپ رہیں گے یہ لوگ آپ کا مذاق اڑاتی رہیں گی۔ آپ نے پہلے ہی شکایت کر دی ہوتی تو پہلے ہی سدھر گئی ہوتیں یہ۔”
"مس پہلے کبھی کسی نے میری حمایت ہی نہیں کی کہ مجھے ہمت ہوتی۔” سہیل اپنے مخصوص جھجھکے ہوئے لہجے میں بولا اور وین لاک کر کے گارڈ کے روم میں چلا گیا۔ بسمہ اندر گئی تو بختاور کے آفس سے اس ٹیچر کے زور زور سے بولنے کی آواز آرہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد بختاور نے سب ٹیچرز کو اندر بلا لیا۔
بختاور نے سب کو مخاطب کر کے کہا
” عفت کا کہنا ہے کہ سہیل نے اس کے ساتھ بد تمیزی کی ہے۔ سہیل ہمارے ساتھ پانچ سال سے ہے اسے ہم آپ سب سے زیادہ اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر شکایت پہ مکمل کاروائی ضروری ہے تاکہ اگر واقعی سہیل کی غلطی ہے تو اسے وارننگ دی جاسکے”
” میڈم صرف وارننگ نہیں اسے ابھی اور اسی وقت نکالیں ورنہ میں یہ جاب چھوڑ دوں گی۔”
” عفت پہلی غلطی کی سزا پہ ایکسپلینیشن اور وارننگ ہی نکلتی ہے یہ ادارے کی پالیسی ہے۔”
"میڈم یہ ڈرائیور ہے یہ تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے کونسی پالیسی؟”
"ڈرائیور ہو یاٹیچر ایمپلائی ہے تو پالیسی بھی ایک ہی ہوگی۔ خیر آپ لوگ بتائیں کہ ہوا کیا تھا۔”
"میڈم ہم آپس میں مذاق کر رہے تھے اس میں سہیل کا تذکرہ آگیا تو اس نے ہم سے بد تمیزی شروع کردی۔”
بسمہ دوسری ٹیچر کی غلط بیانی پہ حیران رہ گئی۔ باقی تینوں بھی ہاں میں سرہلانے لگیں۔
” آپ کے آپس کے مذاق میں سہیل کا ذکر کیسے آگیا ایک دم؟”
” میڈم یہ لوگ فضول میں میرا اور سہیل کا نام ساتھ لے رہی تھیں میں نے منع کیا تو سہیل کا مذاق اڑانے لگیں جیسا یہ لوگ عموما کرتی ہیں۔ اور یہ بھی کہا کہ اگر یہ ہم سے بدتمیزی کرے گا تو اسے نکلوا دیں گے جس پہ سہیل نے کہا کہ یہ لوگ اسے نہیں نکلوا سکتے۔”
کسی اور کے بولنے سے پہلے بسمہ بول پڑی اسے لگا اگر وہ نہیں بولے گی تو معاملے کو اور غلط توڑ مروڑ کے پیش کیا جائے گا۔
"عموما کرتی ہیں؟”
بختاور نے حیرت سے کہا
"میڈم ہم تو سہیل بھائی کو بھائی سمجھ کر ہلکا پھلکا مذاق کرتے ہیں۔ مس بسمہ کی سوچ پتا نہیں کیسی ہے انہیں لگتا ہے ہم ان سے فری ہورہے ہیں۔ ویسے یہ مرد ہے مرد ہے کہہ کر ہمیں ان کا تذکرہ کرنے پہ ٹوکتی ہیں اور آج انہی کی سائیڈ لے رہی ہیں۔”
"بھائیوں کا مذاق اڑانے کی اجازت کونسے قانون میں ہے؟ اور اگر آپ سہیل کو بھائی سمجھتی ہیں تو یہ کہنا عجیب نہیں ہے کہ ڈرائیور ہو کر اس نے ہم سے بدتمیزی کی؟ آپ لوگ ڈسائیڈ کرلیں کہ آپ اسے بھائی سمجھتی ہیں یا ڈرائیور۔ بھائی کے رشتے سے مذاق کرتی ہیں تو اس کی بات بھی برداشت کرنی چاہیے اور پروفیشنل لمٹس رکھنی ہیں تو پہلے آپ کو ان لمٹس کی پابندی کرنی ہوگی۔”
بختاور نے بے لچک لہجے میں ان سب کو تنبیہ کی۔
"میڈم آپ اگر اسے نہیں نکالیں گی تو میں اپنے بھائی سے بات کروں گی”
"بیٹا آپ اپنے بھائی سے بات کریں میرے بھائی سے یا کسی بھائی لوگ سے پالیسی پالیسی ہے غلطی آپ لوگوں کی ہے وارننگ بھی آپ لوگوں کے لیے نکلے گی۔ جسے جاب کرنی ہے کرے نہیں کرنی کسی پہ کوئی زبردستی نہیں ہے۔ مگر اخلاقیات کی پاسداری ضروری ہے۔ یہاں پہ کوئی کسی عہدے کی وجہ سے بڑا یا کم تر نہیں ہے ہم سب معاشرے کی بہتری کے مقصد پہ کام کر رہے ہیں اور ہماری ٹیم کا ہر فرد اہم بھی ہے اور محترم بھی۔” بختاور نے بیل بجا کر پیون کو بلایا
"چاچا! سہیل کو کہیے انہیں دارلامان چھوڑ آئے اور جو نا جانا چاہیں انہیں گھر ڈراپ کردیں۔”
کچھ دیر بعد وہ پانچوں خاموشی سی دارلامان جارہی تھیں۔ بسمہ کو دلی خوشی تھی کہ اب کم از کم سہیل ان سب کے روز کے مذاق سے بچ گیا۔ بسمہ کو جب سے اس کی کہانی پتا چلی تھی اسے سہیل سے ہمدردی ہوگئی تھی۔ پہلے وہ اس کے اتنا گھبرائے رہنے پہ چڑتی تھی مگر اب اسے اس کا رویہ منطقی لگتا تھا اتنا سب کچھ سہہ لینے کے بعد اگر وہ تعلیم حاصل کر رہا تھا اور اپنا خرچ خود اٹھا رہا تھا تو یہی بہت بہادری تھی۔ اس کا پتا نہیں کیوں دل چاہنے لگا کہ وہ اعتماد بڑھانے میں سہیل کی مدد کرے۔
دن آہستہ آہستہ گزر رہے تھے۔ اسی دوران اس کے امتحانات بھی ہوگئے اور صبح کا وقت فارغ مل گیا کچھ دنوں کے لیے۔بسمہ ہر گزرتے دن کے ساتھ خود میں مزید خود اعتمادی محسوس کرتی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے وہ مسئلوں سے بھاگنے کی کوشش کرتی تھی۔ اور اب مسئلے کا سوچ سمجھ کے سامنا کرنے لگی تھی۔ اسے کم از کم یہ اندازہ تو ہوگیا تھا کہ مسئلوں سے نظریں چرانے سے مسئلے کبھی حل نہیں ہوتے۔ نہ کسی اور پہ اپنی ذمہ داری ڈال دینے سے حل ہوتے ہیں۔ گھر کا نظام کافی حد تک ایک ڈگر پہ آگیا تھا۔ فوزیہ بھابھی دن میں نیچے آجاتی تھیں تھوڑابہت کام کرنے میں امی کی مدد کردیتی تھیں۔ بسمہ کی کوشش تھی کہ امی کو ان پہ غیر ضروری نکتہ چینی سے روکے رکھے۔ امی بہت بار ان کی غلطی درگزر کر بھی جاتیں مگر دادی انہیں فرمانبردار قسم کی بہو کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھیں کہ وہ ان کے گھرانے کی ترکیبوں سے کھانے پکائیں ان کے مقرر کیے ہوئے وقت پہ سوئیں جاگیں ان کی مرضی کے کپڑے پہنیں۔ بسمہ کو یہ بھی اندازہ تھا کہ دادی کی عمر میں اب انہیں سمجھایا نہیں جاسکتا۔ ایسے میں اسے بھابھی سے ہی ڈسکس کرنا زیادہ موزوں لگا۔ دادی سے بحث نہیں کی جاسکتی تھی مگر اس کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں تھا کہ بھابھی اپنے حق چھوڑ دیتیں۔ بسمہ کو آسان طریقہ یہ لگا کہ بھابھی کی دوست بن جائے دادی یا امی کی کوئی بات بری لگے تو وہ بسمہ سے کہہ کر دل ہلکا کر لیں۔ اسے پتا تھا کہ ایک دفعہ چھوٹی بحث بھی جھگڑے میں بدل گئی تو آپس کی جھجھک اور لحاظ ختم ہوجائے گا۔ مگر ساتھ ہی اس نے دادی اور امی کو مختلف طریقوں سے مطمئین کرنے کی ذمہ داری بھی لے لی تھی۔ اب بس ایک بڑا مسئلہ رہ گیا تھا اسد کا۔ اسے اتنے بے جا لاڈ کا عادی بنا دیا گیا تھا کہ اب وہ کسی کی کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھا۔ بسمہ کی شادی جتنے عرصے رہی اتنے عرصے میں اسد اور باقی گھر کے چاروں بڑوں کے درمیان تعلقات بری طرح کشیدہ ہوگئے تھے۔ انہیں ایکدم سے خیال آگیا تھا کہ اسد بہت بگڑ گیا ہے اسے سنبھلنے کا موقع دیئے بغیر ہی اس پہ بار بار تنقید شروع کردی گئی۔ اسے گھر میں آنے والی تبدیلی سمجھ نہیں آرہی تھی اور بھائی سمیت سب چاہ رہے تھے کہ ایک لیکچر کے بعد وہ ذمہ داری میں قائد اعظم ہوجائے۔ اب اسد کا یہ حال ہوگیا تھا کہ وہ ہروقت جارحانہ موڈ میں ہوتا تھا۔ عموما گھر سے باہر رہتا تھا۔ بہت سوچنے کے بعد بسمہ اس نتیجے پہ پہنچی کہ گھر میں ایسا تھا ہی کیا جس کی وجہ سے وہ گھر میں رکتا، سوائے ڈانٹ پھٹکارکے۔
بسمہ کو پتا تھا کہ اسے سائنس کی کتاب میں موجود ہر ایکسپیریمینٹ خود کرنے کا شوق تھا۔ اسے تھیوریز یاد ہوں یا نا ہوں مگر ہر ایکسپیریمنٹ جس کی چیزیں اسے گھر میں مل سکتی تھیں وہ ضرور کر کے دیکھتا تھا۔ باقی سبجیکٹس میں وہ بس اللہ آسرے پاس ہوتا تھا۔ جب تک ابو کی جاب تھی تو اسے جو بھی سامان چاہیے ہوتا تھا ابو کوئی سوال جواب کیے بغیر اسے پیسے دے دیتے تھے۔ مگر اب بحث زیادہ ہوتی تھی اور پیسے کم دیتے تھے اب انہیں اس کا یہ شوق پیسے کا زیاں لگتا تھا۔ اب بھی جب دل چاہتا تھا تو وہ اپنی فزکس یا کیمسٹری کی کوئی کتاب میں سے یا نیٹ سے دیکھ کر کچھ نا کچھ آزماتا ضرور تھا۔ ایک دن اسی طرح وہ کچھ سامان جمع کر کے فزکس کے کسی رول rule کے بارے میں تجربہ کر رہا تھا۔ بسمہ بالکل عام سے انداز میں اس کے پاس جاکر بیٹھ گئی۔ اس نے موبائل وڈیو آن کر لی جیسے مذاق میں رکارڈنگ کر رہی ہو
"جی جناب سائنٹسٹ صاحب آپ بتائیں گے کہ آپ کون سا تجربہ کر رہے ہیں اور اس میں کیا کیا اپریٹس ( تجرباتی آلات) استعمال کر رہے ہیں؟”
اسد نے اپنا کام کرتے کرتے ذرا سا سر اٹھایا۔ بسمہ کی شریر مسکراہٹ سے وہ بھی یہی سمجھا کہ وہ مذاق میں رکارڈ کر رہی ہے۔ اس نے پورے تجربے کی پوری تفصیل بتانی شروع کردی۔ وہ تجربہ کرتا بھی جارہا تھا اور اس کی وضاحت بھی کرتا جارہا تھا۔
رات میں بسمہ نے سائنٹسٹ بھائی کے نام سے ایک یوٹیوب چینل بنایا اور وڈیو اپ لوڈ کردی۔ اب اسے انتظار تھا کہ لوگوں کا کیا ریسپونس ملتا ہے۔ ایک دو دن ایسے ہی گزر گئے کوئی خاص ویوز نہیں آئے۔ مگر چار دن بعد ایک دم سے وڈیو وائرل ہوگئی۔ بسمہ کو بھی اندازہ نہیں ہوا تھا کہ جس فزکس کے روول کا عملی نمونہ اسد نے کرکے دکھایا وہ کافی مشکل کانسیپٹ تھا اور عموما اسٹوڈنٹس اسے کافی سرچ کرتے تھے مگر انگلش وڈیوز انہیں زیادہ سمجھ نہیں آتی تھیں۔ اسد کی وڈیو نے ان کا مسئلہ حل کردیا تھا۔ ایک ہفتے کے اندر اندر 1000 سے زیادہ ویوز اور کئی لائکس مل گئے۔ بسمہ نے اسد کو بتانے کی بجائے فیس بک پہ اپنے پروفائل سے وہ وڈیو شئیر کی اور اسد کو ٹیگ کردیا۔ اسد گھر آیا تو موڈ خوشگوار تھا مگر کچھ بولا نہیں۔ کچھ سامان لے کر بیٹھ گیا۔ بسمہ دوبارہ موبائل لے کر پہنچ گئی۔
"سائنٹسٹ بھائی! وڈیو بناوں؟”
"پہلے کیوں نہیں بتایا تھا کہ وڈیو یوٹیوب پہ ڈالو گی۔ اگر غلط تھیوری بتا دیتا تو اچھی خاصی بیستی ہوجانی تھی۔”
"بچو اتنی سائنس مجھے بھی آتی ہے، کانسیپٹ صحیح تھا اسی لیے اپ لوڈ کی بتایا اس لیے نہیں کیونکہ میرا بھی تکہ تھا چل گیا تو چل گیا۔”
اسد نے تجربہ شروع کیا بسمہ نے ریکارڈنگ، مگر آج اسد جھجھک رہا تھا۔
"اففو تمہیں بتا کے غلطی کی۔ آرام سے کرو ابھی کونسا ڈائریکٹ نیٹ پہ چلا جائے گا غلط ہوگا تو دوبارہ ریکارڈ کرلیں گے۔”
یہ سن کے اسد کچھ ریلیکس ہوگیا۔ پھر روز ہی کوئی نا کوئی تجربہ کرنے لگا جو زیادہ اچھا لگتا وہ چینل پہ اپ لوڈ کر دیتے ۔ اب اس کی کوشش ہوتی کہ زیادہ وقت گھر پہ گزارے۔ وڈیوز پہ کمنٹس میں اسٹوڈنٹس کے ساتھ ساتھ بہت سے ٹیچرز بھی اسد کو بہت اپریشئیٹ کر رہے تھے۔ عموما کا کہنا تھا کہ آپ یقینا بہت جینئیس ہیں۔ اسد کمنٹس پڑھ کے خوش بھی ہوتا تھا اور آہستہ آہستہ اس کا وقت کتابوں کے ساتھ زیادہ گزرنے لگا۔
اسد خوش تھا مگر امی ابو نہیں ان کے خیال میں بسمہ اسد کو بگاڑ رہی ہے اس کے بے تکے شوق پہ اس کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ بسمہ نے اصل میں یہ وڈیو کا سلسلہ اسد کو باہر کی مصروفیت سے دور کرنے کے لیے کیا تھا مگر غیر متوقع طور پہ اس کا بہت اچھا ریسپونس ملنے لگا مگر بہر حال اسد سے بات کرنے کی ضرورت تھی۔ اسے احساس دلانے کی کہ اسے آگے اپنی اور امی ابو کی ذمہ داری نبھانے کے لیے سوچ سمجھ کے فیصلے کرنے ہونگے۔
اب بسمہ اس کے ساتھ نیا تجربہ ریکارڈ کرنے بیٹھتی تو ادھر ادھر کی باتیں بھی کرتی تھی۔ وہ جان بوجھ کے ڈیلی روٹین میں سے وہ باتیں شئیر کرتی جن سے کوئی مثبت نتیجہ نکالا جاسکے اور پھر اس پہ اسد کی رائے پوچھتی تھی۔ اس کی کوشش تھی کہ وہ اسد کو کوئی لیکچر نا دے بلکہ صرف ایک سمت دے دے جس نہج پہ سوچ کے وہ اپنے لیے بہتر فیصلہ کرسکے اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئی تھی۔ چار پانچ ماہ کی اس بات چیت کے بعد اسد میں اتنی تبدیلی آئی کہ امی ابو کو بھی باقاعدہ وہ تبدیلی محسوس ہونے لگی۔
اس دوران بسمہ نے ایک کام یہ بھی کیا کہ وہ ایک گھنٹا پہلے آفس چلی جاتی تھی اور بختاور کی اجازت سے سہیل کو پڑھنے میں مدد دیتی تھی۔ اس نے اسد والا طریقہ ہی سہیل کے ساتھ بھی آزما کے دیکھا۔ مگر سہیل کا بچپن اتنے گھٹن زدہ ماحول میں گزرہ تھا کہ ڈر اس کی شخصیت کا حصہ بن گیا تھا۔ اور یہ ڈر اس کے ہر مسئلے میں اس کے آڑے آتا تھا۔ چھوٹے سے چھوٹا سوال حل کرتے میں وہ اتنا ڈرتا تھا کہ جو بات زبانی صحیح بتاتا تھا وہ لکھتا غلط تھا۔
دارلامان والا پروجیکٹ تقریبا اینڈ پہ تھا وہاں پہ وہ کئی مستقل رہائش پزیر خواتین کو دو طرح سے ٹرینڈ کرچکی تھیں جو کچھ پڑھی لکھی تھیں انہیں باقی کو پڑھانا سکھا دیا تھا۔ جو انپڑھ تھیں انہیں ان کے ہنر کا استعمال بھی سکھادیا تھا ساتھ ہی نئی آنے والی خواتین کو سکھانے کی ذمہ داری بھی سونپی تھی۔ بختاور نے پتا نہیں کیا طریقے استعمال کیے تھے کہ ان کی تنخواہ گورنمنٹ سے دارلامان کے لیے ملنے والے بجٹ میں ہی فٹ کرلی۔ ان میں سے کچھ ان کے شیلٹر ہوم میں شفٹ ہوگئی تھیں جن میں شنو بھی شامل تھی۔ بسمہ کی اس ملاقات ہوتی رہتی تھی اور اب کافی دوستی ہوگئی تھی۔ شنو، فائزہ یا گل بانو جتنی ذہین اور پر اعتماد نہیں تھی مگر پھر بھی کافی سمجھدار تھی اور سب سے اہم بات کہ پرخلوص تھی اور یہی ایک بہترین دوست کی اہم خاصیت ہوتی ہے۔
بختاور اب بسمہ کو اپنے ساتھ پروگرامز میں بھی لے جاتی تھی۔ تاکہ بسمہ اس سمیت دوسرے مقررین کی باتیں بھی سنے اور الگ الگ قسم کے لوگوں سے مل کر انہیں پرکھنا بھی سیکھ سکے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اب بسمہ کو اگلے پروجیکٹ میں بھی ساتھ رکھنا چاہتی تھی جو وومن امپاورمنٹ سے متعلق تھا۔ بختاور اور باقی مینیجرز پروپوزلز بنا رہے تھے مگر سارے آئیڈیاز پہ ہی پہلے سے دوسری این جی اوز یا تو کافی کام کر چکی تھیں یا کر رہی تھیں۔ جس کی وجہ سے انہیں پراجیکٹ ملنا مشکل ہورہا تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ پراجیکٹس اصل معنوں میں خواتین کو امپاور نہیں کرپارہے تھے۔ سب این جی اوز کاغذی کاروائیاں کر کے پیسے سمیٹ رہی تھیں۔
ایک دن ایک پروگرام سے واپس آتے ہوئے بختاور بسمہ سے یہی ڈسکس کر رہی تھی۔ سگنل پہ گاڑی رکی تو فقیرنیوں اور ہیجڑوں نے گاڑی بجا بجا کر پیسے مانگنے شروع کر دیئے۔ سہیل کو پتا نہیں کیا سوجھی مذاق میں کہنے لگا
"میڈم ان فقیرنیوں اور ہیجڑوں کے لیے کوئی پراجیکٹ ہونا چاہیے۔ آپ کو پتا ہے یہ بڑے اچھے اداکار ہوتے ہیں” سہیل بختاور اور بسمہ دونوں کے ہی ساتھ اب کافی اعتماد سے بات کر لیتا تھا۔ کیونکہ وہ دونوں اسے عزت سے مخاطب کرتی تھیں۔
"میڈم آئیڈیا برا نہیں ہے۔ کیوں نا ان کے اسٹریٹ تھیٹر ٹائپ کروائے جائیں۔ اور ٹاپک یہی روزمرہ میں خواتین کے مسائل ہوں خاص طور سے یہ خود جن مسائل سے گزرتی ہیں۔”
بسمہ نے بھی سہیل کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"ہمم یہ آئیڈیا بھی ہوسکتا ہے مگر اس کے علاوہ بھی کچھ ہو جو ان خواتین کو سکھایا جاسکے جو اسٹریٹ تھیٹر نہیں کر سکتیں یا نہیں کرنا چاہتیں۔”
” مکینک اور ٹیکنیشن کا کام” سہیل نے دوبارہ اچھوتا مشورہ دیا۔
"سہیل یہ زیادہ ہوگئی اب، یہ تو عجیب آئیڈیا ہے”
بسمہ ہنس دی
” نہیں یہ واقعی سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔ گھروں میں عموما کام پڑے رہتے ہیں کیونکہ دن میں مرد گھر میں نہیں ہوتے اور رات میں مکینک نہیں ملتا۔ غیر مرد کو صرف عورتوں کے گھر میں عموما بلاتے ہوئے لوگ ہچکچاتے ہیں۔”
"ویلڈ پوائینٹ مگر لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ عورت یہ فن سیکھ ہی نہیں سکتیں” بسمہ نے کہا
"وہ تو جب سیکھ جائیں گی تو ان کا خیال خود ہی رد ہوجائے گا۔ مگر خیال واقعی اچھا ہے۔” بختاور نے بھی حمایت کی۔
"چلو اب باقی ٹیم کے ساتھ بھی ڈسکس کر کے دیکھتے ہیں اور یہ آئیڈیاز تم لوگوں کے ہیں تو تم لوگ ہی پیش کرو گے۔ اور اگر آئیڈیاز پسند آگئے تو اس پہ مزید کام بھی تم لوگ ہی کرنا۔”
” میڈم مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں یہ بس ایسے ہی سہیل نے کہا ایکٹنگ کا تو میں نے تھوڑا ایڈ کردیا۔”
"ہمارے ذہن میں بھی ایسے ہی آئیڈیاز آتے ہیں۔ اور ویسے بھی پرانے ذہنوں کی جگہ کبھی نا کبھی نئے ذہن لیں گے۔ تو بہتر ہے کہ ہم پہلے سے موجود اچھے ذہنوں کو آگے کے لیے تیار کرلیں۔”
وہ لوگ باتیں کرتے جارہے تھے اس وقت وہ نسبتا سنسان سڑک سے گزر رہے تھے۔ ایک دم سہیل نے جھٹکے سے بریک لگایا۔ جھٹکا اتنا شدید تھا کہ وہ دونوں ہی آگے ٹکرائیں۔
"کیا ہوگیا سہیل بیٹا احتیاط سے چلائیں۔”
بختاور نے ٹوکا مگر سہیل نے کوئی جواب نہیں دیا اس کی نظریں باہر تھیں۔ باہر ایک بائیک ترچھی کھڑی ہوئی تھی اس پہ دو لڑکے سوار تھے آگے والے نے شاید بائیک روکتے ہی پسٹل نکال لی تھی جبکہ دوسرا والا اب پسٹل نکال رہا تھا اور بائیک سے اتر کر قریب آرہا تھا۔ سہیل کا چہرہ دہشت سے سفید پڑ گیا تھا۔ اسٹئیرنگ پہ اس کے ہاتھ باقاعدہ کانپتے نظر آرہے تھے۔ اس لڑکے نے آتے ہی پہلے تو بسمہ اور بختاور کو باہر نکلنے کا کہا اور ان سے موبائل اور کیش مانگا۔ بسمہ اور بختاور وین کی اوٹ میں تھیں اور بائیک والے کو صحیح سے نظر نہیں آرہی تھیں۔ شاید وہ بھی کوئی نیا تھا اس کا دھیان ان دونوں پہ زیادہ تھا اور سہیل کی طرف کم۔ بالکل لاشعوری طور پہ وہ بائیک سمیت دو قدم پیچھے ہوگیا تھا تاکہ اپنے ساتھی کو سامان چھینتا دیکھ سکے۔ ان سب کی توجہ تب وین کی طرف گئی جب ایک دم ہی انجن اسٹارٹ ہوا اور ہوا کی تیزی سے وین آگے دوڑتی چلی گئی۔ بائیک والے تو جو حیران تھے سو تھے۔ بسمہ حیرت سے بے ہوش ہونے کو تھی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ سہیل انہیں ایسی سچویشن میں اکیلا چھوڑ جائے گا۔ بسمہ سے تو خیر ڈیڑھ سال کی جان پہچان تھی بختاور سے تو اس کا چھ سال پرانا تعلق تھا وہ بھی احسان مندی کا۔ جتنا احترام وہ بختاور کا کرتا تھا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ ایسے دھوکا دے جائے گا۔
سہیل کے وین لے جانے پہ وہ دونوں لڑکے ایک دم گھبرا گئے۔ اس وقت تک جو بھی چھینا تھا وہی لے کر فورا بھاگ گئے۔
جب یہ سب ہوگیا تو بسمہ کو اندازہ ہوا کہ اس کے ہاتھ پاوں کانپ رہے تھے اور دل کی دھڑکن تیز تھی۔ اس نے بختاور کی طرف دیکھا۔
"اب کیا کریں؟”
” تمہاری کیا کیا چیزیں چھینی ہیں؟”
” بس موبائل اور تھوڑے پیسے”
"ہمم میرا بھی بس یہی لیا چلو پہلے آفس چلتے ہیں پھر تھوڑا ریلیکس کر کے رپورٹ لکھوانے چلیں گے۔”
"اور سہیل”
"وہ آجائے گا آفس رستہ پتا ہے اسے”
"وہ ان سے ملا ہوا تو نہیں تھا؟ میڈم آپ اس کی بھی رپورٹ لکھوایئے گا”
"آفس چلو پھر دیکھتے ہیں۔ ویسے بھی وہ ڈرائیور ہے گارڈ نہیں۔ ہماری حفاظت اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔”
"مگر میڈم اس کی کچھ تو ذمہ داری اخلاقی بھی بنتی ہے وہ اکیلا مرد تھا ہمارے ساتھ”
"تو یہ کیا اس کی غلطی ہے کہ وہ مرد تھا اور اس کے لیے مدد کرنا ضروری تھا؟”
بسمہ کو بختاور کی سہیل کے لیے بلا وجہ کی حمایت اس وقت بہت کھل رہی تھی۔ مگر بہرحال وہ باس تھی اس لیے بسمہ کو خاموش ہونا پڑا۔
ان لوگوں نے قریبی مین روڈ سے رکشہ لیا اور آفس آگئیں۔ آفس کے گیٹ پہ اتری ہی تھیں کہ اندر سے بہت سارے آفس کے مرد باہر آگئے۔
” میڈم آپ لوگ ٹھیک ہیں نا۔ ارشد اور منیر گئے ہیں وین لے کر اس جگہ۔” ایک کلرک نے بتایا
"اب وہاں کیا ملے گا؟ انہیں کال کریں واپس بلائیں۔ سہیل کہاں ہے؟”
” گارڈ کے روم میں ہے۔ آتے ہی بے ہوش ہوگیا تھا۔ اسے پانی میں گلوکوز پلا دیا ہے۔ مگر رو رہا ہے بیٹھ کے۔”
"اسے کسی نے کچھ الٹا سیدھا ڈانٹا تو نہیں؟”
"اسلم صاحب ہیں ابھی، انہوں نے تھوڑا ڈانٹا کہ دو خواتین کو ایسے چھوڑ کے کیوں آئے۔ میں نے بتایا بھی انہیں سہیل کا مسئلہ مگر وہ کافی ناراض تھے”
"ٹھیک ہے سہیل کے پاس بس کوئی ایک بندہ رہے رش نا لگائیں۔ سب ٹھیک ہے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے بس انہوں نے ہمارے پیسے اور موبائل لیا ہے۔ آپ لوگ اپنی روٹین کنٹینیو ( روزمرہ کے کام جاری) رکھیں۔ اور اسلم ہے تو اسے میرے آفس میں بھیج دیں”
"میڈم میں باہر ویٹ کروں؟”
بسمہ نے پوچھا۔ اسے لگا اندر اسلم کو ڈانٹ پڑنے والی ہے۔ اب اس کا کافی دفعہ اسلم سے سامنا ہوتا رہتا تھا۔ اپنے خیال کے برعکس اسے ایک دفعہ بھی خوف محسوس نہیں ہوا۔ پہلے وہ تھوڑا کتراتی تھی اس جگہ سے جہاں اسلم ہو مگر اسلم نے کبھی اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ اب یہ ہچکچاہٹ بھی ختم ہوگئی تھی۔ مگر فی الحال معاملہ الگ تھا وہ اور بختاور دونوں دیور بھابھی تھے ان کی بات چیت آفیشل ( دفتری) سے زیادہ گھریلو ہونے کا خدشہ تھا اور بختاور کے تیور سے لگ رہا تھا کہ وہ ذرا سختی سے بات کرے گی۔ اس لیے بسمہ کو بہتر لگا کہ باہر ہی رہے۔
"نہیں آجاو اندر ہی، اچھا ہے ایک ہی ساتھ دونوں سے سہیل کا مسئلہ ڈسکس ہوجائے گا۔”
وہ دونوں اندر پہنچی ہی تھیں کہ پیچھے سے اسلم بھی آگیا۔
” بھابھی آپ نے بلایا تھا؟”
"ہاں بیٹھو”
"جی”
اسلم بسمہ سے ایک کرسی چھوڑ کے بیٹھ گیا۔
"تمہاری سہیل سے کوئی بات ہوئی ہے ابھی؟”
"ہاں بھابھی عجیب بندہ ہے آپ لوگوں کی مدد کرنے کی بجائے بھاگ کے آگیا۔ اب بچوں کہ طرح رو رہا ہے۔ اگر وہ لڑکے آپ لوگوں کو کوئی نقصان پہنچادیتے تو؟”
"تمہیں پتا ہے کہ ان کے پاس ہتھیار بھی تھے انہیں نقصان پہنچانا ہوتا تو سہیل کی موجودگی میں بھی پہنچا سکتے تھے۔”
"ہاں وہ تو ہے مگر کچھ تو اس کی ذمہ داری بھی تھی نا۔ کیسا مرد ہے دو خواتین کی حفاظت بھی نہیں کرسکتا۔ میں آپ کا سن کے ویسے ہی پریشان ہوگیا تھا۔ اسے اگر ہتھیار سے ڈر لگتا ہے تو نکال دیں کوئی ایسا ڈرائیور رکھیں جو ایسی سچویشن میں مدد تو کرسکے۔” اسلم نے بالکل وہی بات کی جو بسمہ سوچ رہی تھی۔
"مدد تو بسمہ بھی نہیں کرپائی۔ یا میں بسمہ کی نہیں کرپائی پھر؟ ہمیں بھی نکال دیا جائے؟”
"بھابھی آپ دونوں کی ذمہ داری تھوڑی ہے یہ، آپ لوگ تو عورتیں ہیں۔”
"تو وہ بھی ڈرائیور ہے گارڈ نہیں۔ اسلم مجھے افسوس یہ ہورہا ہے کہ تم اب بھی مرد عورت کو صرف انسان سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ اگر ایسی کسی سچویشن میں عورت ڈر سکتی ہے تو مرد بھی ڈر سکتا ہے۔ اور اگر یہ عورت کے لیے برائی نہیں تو مرد کے لیے کیوں؟” پھر بسمہ کی طرف دیکھا۔
"تمہیں بھی ساتھ بٹھانے کا مقصد یہی تھا۔ کیونکہ مجھے اندازہ ہوا کہ تم بھی سہیل کے رویے پہ حیران ہو۔ دیکھو ڈرنے کا تعلق کسی جنس سے نہیں ہوتا آپ کس ماحول میں رہے ہیں اس سے ہوتا ہے۔ زیادہ تر عورتیں ڈرپوک ہوتی ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں مشکل حالات کا مقابلہ کرنا ہی نہیں سکھایا جاتا ہر جگہ گھر کے مرد آگے آجاتے ہیں حد یہ کہ چھپکلی چوہا بھگانے کے لیے بھی۔ یہی ڈرپوک عورت جب ماں بنتی ہے تو بہت بہادری کا مظاہر کرتی ہے جب اپنی اولاد کو خطرے سے بچانا ہو مگر وہ بھی سب نہیں، کچھ ہمت نہیں بھی کرپاتیں۔ ہم اس سے سیکھنے کی بجائے اسے مقدس اور کوئی الوہی قوت بنا دیتے ہیں۔ جبکہ یہ بہت عام سی نفسیاتی بات ہے کہ آپ کے پاس جب بھاگنے کا یا خطرے سے بچنے کا راستہ نا ہو تو آپ کے پاس صرف لڑنے کا آپشن رہ جاتا ہے۔ ایسے میں پہلے سے ذہنی طور پہ تیار شخص لڑتا ہے اور گھبرا جانے والا اپنے حواس کھو دیتا ہے۔ اسی لیے کچھ دفعہ مائیں بھی گھبراہٹ میں وہ فیصلے کر جاتی ہیں جو بچوں کو فائدہ کرنے کی بجائے نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ اس میں غلطی اس عورت کی نہیں ماحول کی ہے جس نے اسے بہادر بننے کا موقع ہی نہیں دیا۔ یہی مسئلہ سہیل کے ساتھ ہے۔ جس عمر میں اسے بہادر بننا تھا اس عمر میں اس کے ذہن میں خوف بٹھایا گیا تاکہ وہ ہمیشہ فرمانبردار رہے۔ مگر ایک مسئلہ ہے جس پہ اس کا ردعمل بہت شدید ہوتا ہے۔ ہاتھا پائی سے دور تو رہتا ہے مگر ڈرتا نہیں ہے۔ مگر جہاں بھی ہتھیار نظر آئیں اس کے حواس ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ پہلے تو گارڈز سے بھی ڈر جاتا تھا اب کم از کم اتنا ہوا ہے کہ جب تک پسٹل ہولڈر میں ہوتی ہے یہ پرسکون رہتا ہے مگر مذاق میں بھی کوئی پسٹل ہاتھ میں لے لے تو رونا شروع کردیتا ہے۔ دیکھنے میں کوئی نفسیاتی مسئلہ لگتا ہے مگر کیا، یہ سمجھ میں نہیں آرہا۔ بسمہ تم عموما مسئلہ کو نئے سمت سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہو تمہارے ذہن میں کوئی خیال ہو تو بتاو تاکہ اس کی مدد کی جاسکے۔”
"میڈم ایسا تو عموما فوبیاز میں ہوتا ہے۔”
"ہاں مگر اس کے پیچھے کوئی نا کوئی وجہ ہوتی ہے نا۔ میں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی مگر پہلے تو کہتا ہے ایسا کچھ یاد نہیں پھر سر درد کا بہانا کر کے ادھر ادھر ہوجاتا ہے۔”
"بھابھی ایسا نہیں ہوسکتا کیا کہ کسی ماہر نفسیات سے بات کر کے دیکھ لیں یا اس کی ملاقات سہیل سے کروادیں شاید وہ کوئی مدد کر سکے؟”
اس بار اسلم نے مشورہ دیا
"ہاں ہو تو سکتا ہے مگر ماہر نفسیات کا نام سن کر ہی لوگ دور بھاگتے ہیں کہ ہمیں پاگل نہ کہا جائے۔ اسی لیے میں سہیل کو یہ مشورہ دیتے ہوئے ہچکچا رہی تھی۔”
"ہم پہلے کسی ماہر نفسیات سے خود بات کرلیں اگر وہ کوئی ایسا طریقہ بتائے جو ہم استعمال کرسکیں تو سہیل کو لے کے نہیں جانا پڑے گا۔” بسمہ کے مشورے پہ بختاور نے سر ہلایا پھر اپنی ڈائری نکال کر ایک ماہر نفسیات کا نمبر نکالا اور فورا ہی بات کرلی۔ اس سے فارغ ہو کر اس نے پھر اسلم کو مخاطب کیا۔
"اسلم، سہیل کا مسئلہ تم یقینا سمجھ گئے ہوگے۔ لیکن ایک اصول کو عادت بنا لو۔ کسی کا مسئلہ سمجھے بغیر کسی کی بے عزتی کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں۔ دوسری بات وہ تمہارے انڈر میں کام نہیں کرتا۔ تمہیں کسی ملازم کی کسی عادت سے شکایت ہے تم ڈائریکٹ اس سے بات نہیں کرو گے بلکہ اس کے مینیجر سے بات کرو گے۔ ورک پلیس(کام کی جگہ) پہ اپنی اور دوسروں کی عزت اور حفاظت دونوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ کبھی کبھی کوئی ملازم اسے انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ بہتر ہوتا ہے کہ مسائل اپننے طریقے سے حل ہوں تاکہ ماحول بہتر رہے۔”
"ٹھیک ہے آئیندہ خیال رکھوں گا۔”
"اچھا تمہارا یہ پروجیکٹ تو اب ختم ہورہا ہوگا؟”
"جی آخری مہینہ ہے”
"اس کے بعد چاہو تو دوسرے پراجیکٹ کے لیے انٹرن شپ اپلائی کردو۔ تمہارا گریجویشن ہوچکا ہوتا تو جاب کے لیے اپلائی کرسکتے تھے۔”
"فرق کیا ہوگا”
"تنخواہ میں فرق ہوگا ایز انٹرن تمہیں ایکچوئل سیلری سے ہاف ملے گی۔ اور ذمہ داریاں کم ہونگیں۔ اچھا بسمہ تمہارا ابھی انٹر چل رہا ہے تمہیں ہم فیلڈ ورک کے لیے سیلیکٹ کر سکتے ہیں کیونکہ تم ایک سال اس قسم کی خواتین کے ساتھ کام کرچکی ہو۔ اس تجربے کی بنیاد پہ۔ فیلڈ میں ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو لوگوں کو ڈیل کرنا جانتے ہوں اور پر اعتماد ہوں۔”
"آپ نے تو سہیل کے لیے بھی کہا تھا۔”
"ہاں بالکل سہیل کے پاس بہت اچھے آئیڈیاز ہوتے ہیں مگر لوگوں کے درمیان نہیں بولتا۔ مجھے یہ پتا ہے کہ باقاعدہ انٹرویو میں وہ فیل ہوجائے گا مگر میں پوسٹ کی ڈسکرپشن ایسی بنانے کی کوشش کرتی ہوں جس میں اس کو ڈرائیور اور فیلڈ اسسٹنٹ کے طور پہ رکھا جاسکے۔ اصل میں ہمارے یہاں انٹرویو کے لیے جو طریقہ استعمال ہوتا ہے اس میں حقیقی معنوں میں کام کا بندہ چننا تقریبا ناممکن ہے رٹے رٹائے سوال سنا دینے والے کامیاب ہوجاتے ہیں اور اصل باصلاحیت بندہ رہ جاتا ہے۔ میری عموما کوشش ہوتی ہے کہ میرے ساتھ دو تین ایسے بندے ہوں جو واقعی کام کر کے دکھا سکیں اور ضرورت مند ہوں ان کو ذہن میں رکھ کر میں پراجیکٹ پروپوزل میں جاب ڈسکرپشن بناتی ہوں۔ باقی اوپر والوں کو خوش کرنے کے لیے الٹی سیدھی بھرتیاں بھی ہوتی ہیں انہیں روکنا میرے بس میں نہیں۔” یہ بات کرکے بختاور کھڑی ہوگئی
"بسمہ چلو تو رپورٹ بھی لکھوا دیں اور میڈم شمسہ سے بھی مل لیں۔” اس نے ماہر نفسیات کا نام لیا۔
وہ باہر نکلے تو اسلم اپنے کام نپٹانے چلا گیا اور یہ دونوں گارڈ روم کے پاس آگئیں۔ سہیل اب پرسکون لگ رہا تھا مگر آنکھیں کچھ لال لگ رہی تھیں۔
"سہیل بیٹا اب طبعیت ٹھیک ہے؟”
"جی میڈم”
"ڈرائیو کر لو گے؟ تو رپورٹ لکھوا کے آجائیں۔ پھر ایک جگہ کام سے جانا ہے” بختاور اپنی عادت کے مطابق اپنی سے چند سال ہی چھوٹے سہیل کو ہمیشہ شفقت سے ہی مخاطب کرتی تھی۔ شاید اس کی وجہ سہیل کا دنیا میں بالکل اکیلا ہونا بھی ہو۔ بختاور کے اپنے بچے تو ابھی اسکول جانا شروع ہوئے تھے۔
"چلیں میڈم”
وہ لوگ آدھے گھنٹے میں رپورٹ لکھوا کر فارغ ہوگئے اور میڈم شمسہ کے کلینک آگئے۔ انہوں نے تینوں کو ہی اندر بلا لیا۔ تھوڑی بہت سلام دعا کے بعد بختاور نے مسئلہ بتانا شروع کیا۔
"میڈم ابھی ابھی ہمارا موبائل اور پیسے چھین لیے گئے۔ میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ایسا کچھ ہوتا ہے میں دوسروں کے سامنے تو بڑی بہادر بننے کی کوشش کرتی ہوں مگر پھر بھی اندر سے بہت ڈر جاتی ہوں۔ نیند اڑ جاتی ہے۔ ہر ہر بات پہ لگتا ہے دوبارہ ایسا کچھ ہونے والا ہے۔ کئی دن تک کام نہیں کرپاتی۔ اس دفعہ ایسا ہوا تو سوچا آپ سے مشورہ کر ہی لوں۔ پہلے یہ سوچ کے ٹال دیتی تھی کہ لوگ مجھے پاگل نہ سمجھیں۔”
میڈم شمسہ شگفتگی سے مسکرا دیں
"بہت اچھا کیا جو آپ آگئیں۔ یہ لفظ پاگل اصل میں کم فہم لوگوں کا نکالا ہوا ہے۔ ہمارے شعبے میں ہم کسی کو بھی پاگل نہیں کہتے ہیں نہ سمجھتے ہیں۔ تھوڑے بہت نفسیاتی الجھن سے کوئی ذہنی مریض یا پاگل نہیں ہوجاتا۔ آپ خود بتائیں نزلے زکام میں مبتلا شخص معذور تو نہیں کہلائے گا۔ ایسے ہی بہت سے نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں چھوٹے چھوٹے۔ ساتھ ساتھ حل ہوتے رہیں تو زندگی پرسکون رہتی ہے۔”
"جی یہ بات تو ٹھیک ہے اب یہ بتائیں میرے مسئلے کا کیا حل ہوگا۔ مجھے سمجھ ہی نہیں آتا جب کوشش کرتی ہوں کہ اس کے بارے میں سوچوں تو سر میں درد ہونے لگتا ہے۔”
"اصل میں ایسے خوف کسی سنجیدہ واقعے کے بعد ذہن میں بیٹھتے ہیں وہ واقعہ اتنا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ ذہن اسے بھول جاتا ہے مگر اس کا اثر رہ جاتا ہے جب بھی کوئی اس واقعے سے متعلق چیز نظر آتی ہے تو ڈر لگنے لگتا ہے۔ اگر یاد کرنے کی کوشش کرو تو ہمارا لاشعور اسے یاد آنے سے روکتا ہے تاکہ ہم جذباتی تکلیف سے بچ سکیں اس کی وجہ سے سر درد ہوتا ہے۔”
"یہ تو میرے ساتھ بھی ہوتا ہے جی”
سہیل ایک دم بول پڑا۔ بختاور نے نامحسوس انداز میں بسمہ کی طرف مسکراتی نظروں سے دیکھا۔ بسمہ نے ہلکے سے سر ہلایا
"آپ کچھ تفصیل بتائیں۔” میڈم شمسہ نے سہیل سے پوچھا۔ سہیل نے ساری کیفیت تفصیل سے بتا دی۔ تقریبا ایک گھنٹے کی کاونسلنگ کے بعد جو نتیجہ نکلا وہ کافی حوصلہ افزاء تھا۔ سہیل جب 8 سال کا تھا تب ایک دن کچھ لوگوں نے گھر پہ حملہ کردیا تھا پہلے وہ اس کے باپ سے بحث کرتے رہے وہ کسی معاملے کا حوالہ دے رہے تھے اور اسے کہہ رہے تھے کہ کہ تم نے بہت برا کیا تمہیں نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ بہت دیر بحث کے بعد ان لوگوں نے باپ کو گولی مار دی اور سہیل کے سر پہ پستول رکھ کے اپنے ساتھ اغواء کر کے لے آئے۔ ایک سال تک اس سے اپنی خدمتیں بھی کرواتے رہے اور اسے اپنی تسکین کے لیے بھی استعمال کرتے رہے پھر 20 ہزار میں ایک گروہ کے ہاتھ بیچ دیا۔ کچھ عرصے اس سے ایک جگہ بے گار میں کھدائی کا کام کروایا گیا اور پھر اس ہوٹل والی عورت کو 40 ہزار میں بیچ دیا گیا۔ سہیل اس سے پہلے یہ سب بھولا ہوا تھا اسے یا تو والدین کا ساتھ یاد تھا یا ہوٹل والی زندگی۔ یہ سب سہیل نے سیشن کے بعد انہیں بتایا۔ ورنہ سہیل سے بات کرنے کے لیے میڈم شمسہ نے انہیں باہر بٹھا دیا تھا۔
بسمہ گھر آئی تو اس کا دل بہت بوجھل ہورہا تھا۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ سہیل اب بہتر ہوسکتا تھا مگر جتنی مشکل زندگی اس نے گزاری تھی وہ بسمہ کے لیے تصور کرنا ہی بہت تکلیف دہ تھا۔ وہ تو سمجھتی تھی کہ صرف عورت کو ہی دبایا جاتا ہے اور صرف عورت کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا اب مزید شدت سے دل چاہ رہا تھا کہ وہ سہیل کے مدد کرے اس کے تمام دکھ سمیٹ لے۔ اسے یہ خیال بھی تھا کہ یہ یقینا وقتی جذبات ہیں جیسے باسط کا بیان پڑھنے کے بعد تھے۔ مگر شاید اس کا خیال غلط تھا۔ دن گزرتے گئے سہیل کے لیے اس کی جذبات یونہی رہے۔ نیا پراجیکٹ شروع ہوا تو اسلم بسمہ اور سہیل کا آپس میں کام اور بات چیت زیادہ بڑھ گئی۔ ان کے ساتھ ایک لڑکی اور بھی تھی زہرہ وہ بھی کافی پر اعتماد اور ٹیلنٹڈ لڑکی تھی۔ وہ اور بسمہ الگ الگ جھونپٹر پٹیوں یا فقیروں کی بستیوں میں جاتیں خواتین سیلیکٹ کرتیں اور ان کے دو گروپ بنا دیتیں۔ اگلے مرحلے میں ایک گروپ ایک پروفیشنل تھیٹر ایکٹر کے سپرد کیا جاتا جو انہیں اسٹریٹ ڈرامہ کی ٹریننگ دیتا اور دوسرا گروپ ایک گورنمنٹ کے ٹرینر کے سپرد ہوتا جو انہیں مکینک اور الیکٹریشن کا کام سکھاتا۔ اس سے اگلے مرحلے میں پہلے گروپ کے اسٹریٹ تھیٹر شروع کروائے جاتے اور دوسرے گروپ کی خواتین ایک نامور کمپنی کے سروس سینٹرز پہ بھیجی جاتیں۔
اتنے عرصے میں بسمہ کی اسلم اور سہیل دونوں سے ہی کافی بے تکلفی ہوگئی تھی۔ شروع شروع میں زہرہ دونوں مردوں سے کچھ لیے دیئے رہتی تھی مگر پورے دن کا ساتھ ہو ساتھ کھانا پینا ہو تو ایسا رویہ رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ تکلف کام کی بات کرنے میں بھی آڑے آتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی تھی کہ اسلم اور سہیل دونوں بہت احترام سے بات کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ وہ بھی گروپ میں کمفرٹ ایبل محسوس کرنے لگی۔
سہیل کے کاونسلنگ سیشنز بھی چل رہے تھے اور اس کی شخصیت میں مثبت تبدیلی آرہی تھی۔ مگر کافی آہستگی سے۔ وہ لوگ کھانا وغیرہ کا بریک کرتے تو عموما کام پہ ہی گفتگو ہوتی تھی۔ ایک دن سہیل کسی کام سے کھانا کھانے سے پہلے کہیں چلا گیا اور زہرہ آئی نہیں تھی۔اسلم اور بسمہ کسی بات پہ بحث کر رہے تھے بسمہ اسلم کی بات ماننے کی بجائے دلیل دیے جارہی تھی آخر میں چڑ کے اسلم نے کہا
"اففو حالت دیکھو بندہ بات کرے تو ہر بات کا پوسٹ مارٹم کر دیتی ہو اس سے تو تم اسکول میں اچھی تھیں بالکل اچھی بچی ٹائپ ہوتی تھیں۔ بس اپنے آپ میں مگن ” بسمہ کہنا نہیں چاہتی تھی مگر پتا نہیں کیوں شکایت کر گئی
"مگر پھر بھی تم نے مجھے وہ آفر دی۔”
"ہاں اور میں اس پہ شرمندہ بھی بہت ہوا بعد میں۔ اصل میں ہمارے گھر کا ماحول ایسا نہیں تھا۔ جس اسکول سے میں آیا تھا وہاں بھی کلاس فیلوز کے درمیان اس قسم کی باتیں بہت کم تھیں۔ مگر جب تمہارے والے اسکول میں آیا تو ایک تو یہ ذہن میں تھا کہ اب میں جوان ہوگیا ہوں۔ دوسرا جن لڑکوں سے میری دوستی ہوئی وہ بہت غلط عادتوں کا شکار تھے۔ ان میں، میں سب سے اچھی شکل کا تھا اور میری وجہ سے ان کی لڑکیوں سے دوستیاں ہوتی تھیں تو وہ مجھے زبردستی ساتھ رکھتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے میرے غیر ضروری تعریفیں بھی کرنی شروع کردیں۔ رہی سہی کسر کچھ لڑکیوں کے فدا ہوجانے والے رویئے نے پوری کردی۔ میرے گھر کی تربیت کے برخلاف ان لوگوں نے میرے ذہن میں یہ بھی بٹھا دیا کہ جو لڑکی آسانی سے نہیں مانتی وہ اصل میں صرف نخرے دکھا رہی ہوتی ہے تاکہ اسے اہمیت دی جائے ورنہ سب صرف جسمانی تعلق کے لیے انتظار کرتی ہیں کہ کب کوئی لڑکا توجہ دے۔ مجھے اب حیرت ہوتی ہے کہ اتنی گھٹیا سوچ پہ میں نے اس وقت یقین کیسے کیا۔ اسی سوچ کا اثر تھا کہ تمہارے ذرا سے مثبت رویئے کا میں نے بالکل غلط مطلب نکالا۔ تمہارے سخت ردعمل سے اس وقت تو مجھے غصہ آیا مگر بعد میں اسی وجہ سے میں نے دوبارہ اپنی سوچ پہ غور کیا تو اپنی سوچ کے سطحی پن کا اندازہ ہوا۔ اس کے بعد تم سے رابطہ ہی نہیں ہوپایا کہ معافی مانگ سکتا۔” اسلم شاید کافی عرصے سے یہ کہنا چاہتا تھا اسی لیے بسمہ کی ذرا سی شکایت پہ ساری تفصیل بتادی۔
"یہ تو تم صحیح کہہ رہے ہو اسکول کی عمر میں ہمارے دماغ میں ہمیشہ یہی بٹھایا جاتا ہے کہ دوسری صنف والے ہیں ہی برے ان سے بچ کے رہو۔ ایسے میں ہم بہت سے اچھے ساتھیوں کو کھو دیتے ہیں۔ جن کے ساتھ اگر مثبت ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے تو بہت کچھ سیکھ لیں۔”
اسلم نے سر ہلا دیا۔ پھر وہ لوگ اپنے کاموں میں لگ گئے مگر بسمہ کے ذہن میں کافی عرصے سے جو الجھن تھی وہ رفع ہوگئی۔ وہ یہ سوچ رہی تھی کہ ہم کسی واقعے کی بنیاد پہ کسی شخص کے لیے کتنی غلط رائے قائم کر لیتے ہیں جیسا وہ شخص بالکل بھی نہیں ہوتا۔ اور جب تک اس سے بات چیت نہ ہو یہ غلط فہمی کبھی دور نہیں ہوسکتی۔ ان دو سالوں میں اس کا مرد ذات کے بارے میں نظریہ بہت بدل گیا تھا۔ اسے اب مردوں کے غلط رویوں کے پیچھے کی وجوہات بھی پتا تھیں۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ اس نظریئے کے بدلنے میں سہیل کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ سہیل بختاور اور بسمہ کی انتہائی عزت کرتا تھا مگر اس کے علاوہ بھی اس کا رویہ ہر شخص سے اتنا اپنائیت والا ہوتا تھا جیسے وہ اس کا کوئی سگا رشتے دار ہے۔ لڑائی جھگڑوں سے وہ ابھی بھی کتراتا تھا مگر اس کے علاوہ کسی کو کسی بھی قسم کی ضرورت پڑتی سہیل کا بس نہیں چلتا تھا کہ اپنا سب کچھ بیچ کے بھی دوسرے کی ضرورت پوری کردے۔ بسمہ کو افسوس یہ ہوتا تھا کہ لوگ سہیل کی اس عادت کا غلط فائدہ اٹھاتے تھے اس سے مدد بھی لیتے اور پھر ڈرائیور ہونے کی بنیاد پہ تذلیل بھی کرتے تھے۔ ان کے خیال میں یہ سہیل کی ذمہ داری تھی کہ اپنے سے زیادہ عہدے والوں کے لیے ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہے۔ حد یہ کے دوسرے ڈرائیور اور چوکیدار بھی سہیل سے باس والا رویہ رکھتے تھے۔ بختاور کے سامنے اگر کبھی ایسا کچھ ہوتا تھا تو وہ لوگ اچھی طرح ڈانٹ بھی کھاتے تھے۔ مگر شاید یہ ان کی فطرت کا حصہ بن گیا تھا۔
پتا ہی نہیں چلا تین سال کا پراجیکٹ جیسے لمحوں میں ختم ہوگیا۔ بسمہ کا گریجویشن پورا ہوگیا اسلم کا ماسٹرز کا آخری سال آگیا اور سہیل اب انٹر میں تھا۔ کئی دفعہ لوگ اسے مشورہ دے چکے تھے کہ پڑھائی کی نہ تمہاری صلاحیت ہے نہ ضرورت تو چھوڑ دو مگر اس پہ وہ بہت مضبوطی سے ڈٹا ہوا تھا۔ اس کے ذہن میں بیٹھ گیا تھا کہ اچھی تعلیم ہو تو تعلیم سے میڈم بختاور جیسے لوگ بنتے ہیں اور ایسے لوگوں کی معاشرے کو ضرورت ہے۔ مگر وہ اپنے ان خیالات کا اظہار صرف بسمہ، اسلم اور زہرہ کے سامنے ہی کرتا تھا۔ اتنے عرصے میں ان تینوں کی سپورٹ سے اس نے لوگوں کی سامنے بھی اپنی آئیڈیاز بتانے شروع کردیئے تھے۔ عموما اپنے ڈر کی وجہ سے وہ جب اپنے خیال کو ہر طرح سے جانچ لیتا تب ہی بتاتا تھا اور اسی لیے عموما اس کا آئیڈیا بہت مکمل ہوتا تھا۔
سہیل زہرہ سے بات کرتا تھا تو بسمہ کو برا تو نہیں لگتا تھا مگر بس بلا وجہ وہ اداسی محسوس کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ اسے بہت واضح ہوگیا تھا کہ سہیل اس کے لیے اہم ہوگیا ہے۔ کئی دفعہ اسے لگتا تھا کہ شاید سہیل کے بھی یہی جذبات ہیں مگر پھر وہ کنفیوز ہوجاتی تھی کہ شاید یہ صرف احترام ہو۔ مگر جن نظروں سے وہ بسمہ کو دیکھتا تھا وہ کچھ الگ تھیں احترام کے ساتھ اور بھی بہت کچھ ہوتا تھا ان میں۔
بسمہ کو دوبارہ اپنے جذبات وہی نوعمر لڑکی جیسے لگنے لگے تھے۔ اسے سہیل کے بارے میں سوچنا اور سوچتے رہنا اچھا لگتا تھا۔ آفس اور یونیورسٹی میں ایک بہت پروفیشنل اور پریکٹیکل قسم کی لڑکی اس معاملے میں بہت رومانوی ہوجاتی تھی۔ اس ایک خواہش جس سے وہ باسط سے شادی کے بعد دست بردار ہوگئی تھی وہ دوبارہ سے شدید ہوگئی تھی۔ ایک عزت کرنے والا خیال رکھنے والا اور بہت رومانوی شریک حیات۔ دو خصوصیات میں تو سہیل بلامقابلہ جیت گیا تھا۔ مگر تیسری کا پتا نہیں چل رہا تھا۔ ہاں ایک اور بھی معیار تھا مگر اب وہ اتنا بے معنی ہوگیا تھا کہ بسمہ نے اس طرف سوچا ہی نہیں وہ تھا خوبصورتی کا۔ اسے واجبی سی شکل کا سہیل سب سے اسپیشل لگنے لگا تھا۔
ان کا پراجیکٹ ختم ہوا تو بختاور اور ایریا مینیجر کی طرف سے ڈنر بھی دیا گیا جس میں ٹیم کے سارے لوگ موجود تھے ان چار کے علاوہ پانچ لوگ اور تھے جن کا کام ڈاکیومنٹیشن اور فنانس وغیرہ سے متعلق تھا۔ ڈنر کے ساتھ ہی کوئی مووی دیکھنے کا پلان بنا۔ مگر یہ ڈسائیڈ نہیں ہوپایا کہ کونسی فلم دیکھی جائے۔ ہر فلم پہ کوئی نا کوئی اعتراض کر دیتا۔ اس میں بہت فائٹ ہے، اس میں ایکٹنگ اچھی نہیں، اس کا ٹاپک بکواس ہے۔ ایک مووی پہ اسلم بولا
"نہیں نہیں یہ رومینٹک مووی ہے سہیل آدھی میں بھاگ جائے گا۔”
بسمہ کا دل ڈوب گیا۔ مطلب اسے رومان پسند نہیں
"لو کیوں بھاگ جائے گا”زہرہ کی طرف سے بسمہ کے دل کا سوال پوچھ لیا گیا
"ان سے سیڈ اینڈنگ برداشت نہیں ہوتی تین دفعہ میرے ساتھ مووی دیکھنے گیا آدھی میں چھوڑ کے بھاگ گیا۔ کہنے لگا بعد میں، میں خود ہیپی اینڈنگ سوچ لوں گا”
باقی تو سہیل کی حرکت پہ ہنسے مگر بسمہ اور سہیل کی نظریں غیر ارادی طور پہ ایک دوسرے کی طرف اٹھیں ان کی مسکراہٹ زیادہ گہری تھی۔
"واہ ہاتھ ملاو میں بھی یہی کرتی ہوں”
بسمہ غیر ارادی طور پہ کچھ ایکسائیٹڈ ہو کے بول گئی۔
” اوئی اللہ، جلدی کیا ہے میری تعلیم تو پوری ہونے دیں پھر ہاتھ مانگ لیجیے گا جی۔” سہیل نے مذاق میں شرما کے کہا مگر اس کی شرارت بھری مسکراہٹ نے بسمہ کو کنفیوز کردیا۔
"گڈ آئیڈیا۔ بسمہ آپ دونوں کی تعلیم مکمل ہوجائے تو آپ اپنے والدین کو لایئے گا ہم اپنے بیٹے کے فرض سے بھی سبک دوش ہوجائیں گے۔” بختاور فورا سہیل کی والدہ کے عہدے پہ فائز ہوگئی۔
"اوہو میں تو بلینک چیک کے انتظار میں تھی کہ آپ کہتیں یہ لو اور نکل جاو میرے بیٹے کی زندگی سے۔”
بسمہ نے بے ساختہ کہا تو سب اور زور سے ہنس دیئے۔ کہنے کو ان سب کے لہجوں میں شرارت تھی مگر سب کو ہی بسمہ اور سہیل کے جذبات کی سچائی پتا تھی۔
بسمہ اور سہیل کی زندگی کم از کم اس نہج پہ پہنچ گئی تھی جہاں سب اچھا بھلے نا ہو مگر دونوں کو یہ اطمینان تھا کہ دونوں نے ایک دوسرے کو صرف اچھائیوں کے ساتھ نہیں بلکہ تمام کمیوں کے ساتھ بھی قبول کیا ہے۔
بسمہ کو پتا تھا کہ سہیل کے لیے گھر والے آسانی سے نہیں مانیں گے۔ مگر باسط کو ملا کر ان کے تین فیصلوں نے ثابت کردیا تھا کہ اچھے فیصلے کے لیے صرف اولاد کی محبت کا دعوا نہیں زمانے اور انسانوں کی صحیح سمجھ ہونا بھی ضروری ہے۔
سہیل کے لیے دلیل دینی پڑے یا اسٹینڈ لینا پڑے وہ تیار تھی۔ اسے اپنے لیے لڑنا آگیا تھا۔

 

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button