میں حقیقت سے نہیں خوابوں سے ڈرتا ہوں
میں دشمنوں سے نہیں دوستوں سے ڈرتا ہوں
نفرت کے قابل سمجھتی ہے یہ دنیا جن کو
میں تو پیار بھی اکثر ان لوگوں سے کرتا ہوں
آج کے رشتے ناتوں سے بڑا خوف آتا ہے مجھے
درمیاں میں رہ کر بھی میں اپنوں سے ڈرتا ہوں
نفرتیں گھر چکی ہیں ہمارے دلوں میں اتنی
محبت کرنے والے اب سارے لوگوں سے ڈرتا ہوں
دشمنوں کی دشمنی سے ڈر نہیں ہے مجھ کو
آستینوں میں چھپے ہوئے سانپوں سے ڈرتا ہوں
اپنی ذات سے نہ ہو تکلیف کبھی کسی کو یوسف
بس دعائوں کا طلبگار ہوں بددعائوں سے ڈرتا ہوں
محمد یوسف برکاتی